معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
’’مجاہدے میں حق تعالیٰ آدھی جان لیتے ہیں اور اس کے عوض میں سو جان عطا فرماتے ہیں، اور ایسی ایسی نعمتیں عطا فرماتے ہیں کہ جو تیرے گمان میں بھی نہیں آسکتیں۔‘‘ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے سلطنت چھوڑ دی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی کیا قدر فرمائی، پہلے صرف ایک محدود سلطنت کے مالک تھے اب خشکی اور تری پر حکومت نصیب ہوگئی ؎ گدائے میکدہ ام لیک وقتِ مستی بیں کہ ناز بر فلک و حکم برستارہ کنم ایک روز ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ دریا کے کنارے گدڑی سی رہے تھے کہ اچانک سلطنتِ بلخ کا ایک وزیر اس راہ سے گزرا۔ وزیر نے بادشاہ کو اسی غربت میں گدڑی سیتے ہوئے جب دیکھا تو دل میں سوچا کہ انہوں نے ملک ہفت اقلیم ضایع کرکے گدڑی سینا شروع کردیا ہے، ایسی سلطنت پر اس گدائی کو ترجیح دی ہے، نہ معلوم یہ کون سی عقل مندی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وزیر کے اس خیالِ باطل کو حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ پر منکشف فرمایا، پس حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سوئی دریا میں پھینک دی اور حکم دیا کہ اے مچھلیو! میری سوئی لاؤ، اس حکم کو سننا تھا کہ سو ہزار مچھلیاں سونے کی ایک ایک سوئی اپنے اپنے لبوں میں دبائے ہوئے دریا کے کنارے حاضر ہوکر عرض کرنے لگیں کہ حضرت! سوئی حاضر ہے۔ اسی کو حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ صد ہزاراں ماہیے اللّہئے سوزنِ زیرِ لبِ ہر ماہیے سر بر آوردند د از دریائے حق کہ بگیر اے شیخ سوزنہائے حق سینکڑوں ہزاروں مچھلیاں اللہ والی سونے کی سوئی اپنے اپنے لبوں سے دبائے ہوئے