معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
دریائے حق سے اپنے سروں کو ظاہر کرکے عرض کرنے لگیں کہ اے شیخ! اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی سوئیاں لے لے۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ اے اللہ! میں اپنی سوئی چاہتا ہوں، بس ایک مچھلی وہ خاص سوئی جس کو شیخ نے دریا میں پھینکا تھا لے کر حاضر ہوئی۔ اس وقت حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے اس وزیر سے فرمایا کہ ’’ملک ِدل بہ یا چنیں ملکِ حقیر۔‘‘دل کی سلطنت بہترہے یا ملکِ حقیر۔ وزیر کا اتنا سننا تھا کہ وزیر نے ایک آہ کھینچی اور کہا: افسوس کہ مچھلیاں تو اس اللہ والے کو پہچانتی ہیں اور میں اس شیخ اور قطبِ زماں سے بے خبر ہوں،میں انسان ہوکر بدبخت ہوں اور یہ مچھلیاں اس دولت ِمعرفت کے سبب مجھ سے سعید ہیں۔ پس وزیر نے اس شاہِ دین شیخِ بلخ کے سامنے سراپا ادب بن کر سلام کیا اور روتا ہوا دولت عشقِ حقیقی سے کامیاب واپس ہوا۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس مقام پر ایک نصیحت فرماتے ہیں ؎ پس تو اے ناشستہ رُو در چیستی در نزاع و در حسد باکیستی بادمِ شیرے تو بازی می کنی بر ملائک تر کتازی می کنی اولیاء را ہست قدرت از الٓہ تیر جَستہ باز گر داند ز راہ پس اے بے دُھلا ہوا چہرہ رکھنے والے! یعنی نامعقول اور نالائق تو کس گمان میں ہے، یہ حسد اور جنگ کن مقدس اور پاکیزہ نفوس سے کرتا ہے؟ شیرانِ طریقِ حق سے تو مقابلہ کرتا ہے، فرشتوں سے دوڑ میں سبقت کرتا ہے، یعنی اللہ والوں سے بدگمانی اور حسد نہ کرنا چاہیے، کیوں کہ اولیاء کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور کرامت کے ایسی طاقت عطا ہوتی ہے کہ تیر جستہ کو واپس کرلیتے ہیں ؎