معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
سپرد فرمادیا ہے۔ اسی کو حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: کُلُوۡا وَ تَمَتَّعُوۡا قَلِیۡلًا اِنَّکُمۡ مُّجۡرِمُوۡنَ ﴿۴۶﴾ وَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ ﴿۴۷﴾؎ اللہ تعالی کافروں کو خطاب فرماتے ہیں کہ تم تھوڑے دن اور کھالو اور چند روزہ حیاتِ دنیویہ کو برت لو، عن قریب کم بختی آنے والی ہے۔ تم بے شک مجرم ہو۔ اس روز حق کے جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر دنیا کی قدر اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پَر کےبرابر بھی ہوتی تو کافروں کو ایک گھونٹ پانی نہ دیتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اِنَّ الدُّنْیَا جِیْفَۃٌ وَطَالِبُوْھَا کِلَابٌ؎ ’دنیا ایک مردار چیز ہے اور اس کے چاہنے والے کتّے ہیں۔ اورحق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اگر ہم چاہتے تو کافروں کے مکانات سب سونے چاندی کے بنادیتے۔لیکن ہمارے بندے فتنے میں مبتلا ہوجاتے،یعنی سب کے سب کا فر ہوجاتے۔ واضح رہے کہ نافرمان بندے باوجودسامانِ عیش و راحت کے تلخ زندگی میں رہتے ہیں ؎ از بروں چوں گورِ کافر پُر حلل واندروں قہر ِ خدائے عزّو جل مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ باہر سے کافر کی قبر پر خوب پھولوں کے ہار ہیں اور بینڈ باجے ہیں اور اندر قبر کے خدائے عزّوجل کا قہر ہورہا ہے۔ دنیا میں بھی نافرمانوں کا یہی حال ہے کہ ان کے قلوب ہزاروں عیش کے ہوتے ہوئے بھی بے چین اور پریشان رہتے ہیں، کیوں کہ قلب کی راحت کا مدار اللہ تعالیٰ کی یاد پر ہے۔ غافل قلب کو اطمینان میسّر نہیں ہوسکتا۔ بعض لوگ اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ جب دل کو فلاں فلاں کاموں سے اطمینان ہوجائے تو ذکر شروع کریں، پھر جب وہ کام پورے ------------------------------