معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
یعنی جو سر عشق سے مقطوع ہو اس کے سامنے اگرچہ سو خندق ہوں لیکن سر برید عشق کے درد کے سامنے یہ صدہا خندق محض ایک مزاح کی حیثیت رکھتے ہیں ؎ عشق خونی چوں کند برزہ کماں صد ہزاراں سر بپولے از زماں مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عشق خونی جب چلّہ کمان پر چڑھالیتا ہے تو ہزاروں سر اس وقت میں ایک پیسے میں بک جاتے ہیں۔ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ کی صفت کو حق تعالیٰ نے رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ کی صفت پر مقدّم فرمایا ہے، اس میں عجیب راز ہے جس کو مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ عشق از اوّل چرا خونی بود تا گریزد ہر کہ بیرونی بود مولانا فرماتے ہیں کہ عشق کا منظر اوّل وہلہ میں بہت خونی معلوم ہوتا ہے تاکہ غیر عاشِق نہ داخل ہوسکے، کیوں کہ دربارِ عشق دربارِ خاص ہے، یہاں تو صرف سراپردۂ جلال ہے، یہاں اس کا گزر کب ہوسکتا ہے جس کے دل میں نفاق اور ملال ہے ؎ نماند سراپردہ اِلّا جَلال بدرد یقیں پردہ ہائے خیال سوا سرا پردۂ جلال کے اور کوئی پردہ باقی نہ رہا، یقین کا نور تمام پردہ ہائے خیال کو پھاڑ دیتا ہے،سرا پردہ اس آخری پردہ کو کہتےہیں جو بادشاہ کے سامنے پڑا ہوتا ہے۔اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ میں چوں کہ جانبازی کا معاملہ تھااور جانبازی ہی عشق کا خاص جھنڈا ہے، جو سلطنتِ عشق کو دوسری سلطنتوں سے ممتاز کردیتا ہے ؎ من علم اکنوں بصحرا می زنم یاسر اندازی و یا روئے صنم مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں میدان میں اب اپنی محبّت کا جھنڈا گاڑوں گا یا تو سردےدوں گایا محبوب کی زیارت کروں گا، یعنی عاشقین صادقین کو محبوب کے