معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
کزنیسْتاں تا امرا ببریدہ اند از نفیرم مرد و زن نالیدہ اند یعنی بانسری کا نالۂ نَے بزبانِ حال یہ کہتا ہے کہ مجھ کو نیستاں یعنی میرے اصل مرکز سے مجھ کو جُدا کردیا ہے، اسی جدائی کے غم سے آج میرے نالوں سے تمام مرد و زن نالاں ہیں، یعنی میری آواز درد ناک سننے والوں پر گریہ طاری ہوجاتا ہے۔ ہر کسے کو دور ما نداز اصل خویش باز جوید روزگار اصل خویش یعنی مولانا قاعدہ کلیہ بیان فرماتے ہیں کہ ہرشخص جو اپنے اصل مرکز سے دور ہوگا تو پھر وہ اپنے زمانۂ وصل کا طلب گار ہوگا۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے رُوح کو بانسری سے تشبیہ دی ہے اور یہ تشبیہ محض سمجھانے کے لیے ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ رُوح کا عالَم، عالَمِ امر ہے اور بانسری عالَمِ ناسوت کی چیز ہے، چہ نسبت خاک رابا عالَمِ پاک۔یہاں تشبیہ من کل الوجوہ نہیں ہے، بلکہ صرف اس جہت سے تشبیہ دی ہے کہ با نسری کو اس کے اصل مرکز سے کاٹ کر جدا کرتے ہیں اور اس بانسری میں رونے کی سی آواز جو نکلتی ہے اس کو نالۂ غمِ جدائی از اصل سے تشبیہ دی ہے۔ پس اسی طرح روح کو اس کے اصل مرکز سے یعنی قربِ خاص عالَمِ امر سے جدا کرکے ایفائے عہدِ الست کے لیے دنیا میں بھیجا ہے۔ اسی کو حضرت رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ ناف بر ما مہرِ خود ببریدہ اند عِشقِ خود درجانِ ما کاریدہ اند (اصل شعر میں ’’برمہراو‘‘ اور ’’عشق او‘‘ہے، ضرورت کے لیے ترمیم کرلی گئی ہے) یعنی حق تعالیٰ نے پیدایش کے وقت میری ناف کو ایفائے عہدِ وفا اور محبت کی شرط پر کاٹا ہے۔ مراد یہ ہے کہ عالَمِ امر سے بشرطِ ایفائے عہدِ الست جدا فرمایا ہے اور اپنی محبت کو اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ فرماکر ہماری جان میں بودیا ہے، محبت کا بیج وہیں سے رکھ دیا