معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
صرف و نحو و منطقم را سوختی آتشِ عشقِ خدا افروختی اے میرے پیرِ (شاہ آفاق صاحب) شیریں داستاں یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت کی گفتگو سنانے والے! حق تعالیٰ کی ذات جو ہماری ظاہری آنکھوں سے مخفی ہے اس ذاتِ پاک تک رسائی کے لیے کچھ نشان بیان فرمائیے، آپ نے میرے علومِ ظاہری صَرف و نحو ومنطق کو اللہ کی محبت کی مٹھاس چکھاکر نذرِ آتش کردیا۔ یعنی پہلے میں نے ان ہی علومِ ظاہرہ کو مقصود بنا رکھا تھا، اب آپ کے فیضانِ صحبت سے یہ علومِ ظاہرہ ذریعۂ مقصود بن گئے اور مقصود صرف رضائے حق بن گیا، جو ان علوم کا بھی اصل حاصل و مقصود ہے۔ علم کی نعمت گندے قلب میں نہیں عطا فرماتے ہیں، قیمتی عطر کے لیے شیشی بھی صاف اور شفاف منتخب ہوتی ہے۔ حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا پہلے تزکیہ فرمایا گیا، تب علم عطا فرمایا گیا یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ؎حضور صلی اللہ علیہ وسلم آیاتِ الٰہیہ کو پڑھ کر سناتے ہیں اور ان لوگوں کا تزکیہ فرماتے ہیں، تلاوتِ آیات اور تزکیہ میں ربط یہ ہے کہ انوارِ تلاوت سے حضرات صحابہ کو اپنی ظلمات کا علم ہوگیا، ہر شے اپنی ضد سے متعارف ہوتی ہے، پس انوارِ تلاوت کا جب اُجالا ہوا تو حضرات صحابۂ کرام کو اپنے امراض نظر آگئے اور ان کے اندر تزکیہ کی فکر اور طلب پیدا ہوگئی، پس طلب کا پیدا ہونا تھا کہ رحمۃ للعالمین کی رحمت تزکیہ میں مشغول ہوگئی،تزکیہ کے بعد کتاب اور خوش فہمی کی تعلیم حضرات صحابہ کو دی گئی۔ان آیتوں کی ترتیب میں بڑے علوم ہیں۔ معلوم ہوا کہ تعلیمِ کتاب اور حکمت کے اہل وہی سینے ہوتے ہیں جو رزائل سے پاک و صاف ہوں کسی اللہ والے کی صحبت سے۔ وہ عالم جو عاقلوں پرتنگیٔ معیشت اور نادانوں پر فراخیٔ رزق دیکھ کر زندیق ہوگئے وہ دراصل عالم باللہ نہ تھے، محض عالم بالکتاب تھے، اُن کا علم اُن کے گندے سینے ------------------------------