معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ایسے ہی لوگ عالمِ ربّانی کہلاتے ہیں، اسی کے متعلق حضرت عارف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ دانشِ نور است در جانِ رجال نے ز دفتر نے ز راہِ قیل و قال مردانِ خُدا یعنی اللہ والوں کی جانوں میں عطائے حق سےنورانی عقل ہوتی ہے، محض کتابوں کے دفتر سے اور محض قیل و قال کی راہ سے یہ نورانی عقل نہیں ملتی۔ خم کہ از دریا در و راہے شود پیش او جیحونہا زانو زند مولانا فرماتے ہیں: اللہ والوں کے قلب کی مثال اس مٹکے کی سی ہے جس کاتعلق کسی خفیہ راہ سے سمندر سے ہوتا ہے اور بڑے بڑے جیحوں جیسے دریا اس مٹکے کے سامنے اس کے باطنی تعلق من البحر کے سبب زانوئے ادب طے کرتے ہیں، (فارسی میں دریا کا اطلاق سمندر پر ہوتا ہے) جیحوں جیسےدریا خشک ہوسکتے ہیں لیکن اس مٹکے کا پانی ہمیشہ جوش مارتا رہے گا، کیوں کہ باطنی راہ سے سمندر کا فیض اس مٹکے میں آرہا ہے، یہی عارفین کے علوم کا حال ہے ؎ بینی اندر خود علومِ انبیاء بے کتاب و بے معید و اوستا یعنی عارفین اپنے باطن میں بدون کتاب اور استادکے علومِ انبیاء کو موجزن پاتے ہیں،یعنی مشکوٰۃِ نبوت سے ان کے قلوب پر فیوضِ علمیہ کا ورود ہوتا رہتا ہے اور یہ مواہبِ علمیہ کب نصیب ہوتے ہیں، جب کسی اللہ والے کی جوتی سیدھی کی جاتی ہے ؎ قال را بگزار مردِ حال شو پیشِ مردِ کاملے پامال شو