معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
یعنی کامل اطاعت کی برکت سے قرب میں ترقی ہوتے ہوتے جب دست بوسئ شاہ نصیب ہوگئی تو پا ئےبوسئ شاہ کی طرف التفات باقی نہ رہا۔ اس تقریر سے نعمتِ الٰہیہ سے استغناء وارد نہیں ہوتا، بلکہ ایک رفیع نعمت سے ترقی ہے طرف ارفع نعمت کے، خوب سمجھ لیا جاوے۔ حضرت حافظ صاحب شیرازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ تو و طوبیٰ و ما و قامتِ یار فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اوست فرماتے ہیں: اے زاہد! تو اور طوبیٰ یعنی توجنّت کی نعمتوں میں مست رہ اور میں اور قامتِ یار یعنی میں محبوبِ حقیقی کی ذاتِ پاک پر قربان رہوں اور ہر شخص کی بلندیٔ فکر کا مدار اس کی ہمّت کی مقدار پر ہے ؎ خوش تر از دو جہاں آنجا بود کہ مرا با او سر و سودا بود مولانا عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دونوں جہاں میں سب سے بہتر جگہ میرےلیے وہ جگہ ہے جہاں وہ محبوبِ حقیقی ہو اور میں ہوں اور اپنے محبوب سے راز و نیاز اور محبت کا کاروبار ہو۔ حضرت شاہ فضلِ رحمٰن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ غلبۂمحبت میں اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے ؎ یس من مُوہ لبدگے تَو ہیں سُمرن تور بسر گے مَوھیں آپ کی محبت نے ہمیں ایسا موہ لیا کہ غلبۂ محبت میں تعریف کرنے کا بھی ہوش نہ رہا۔ اور حضرت شاہ صاحب گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ دردؔ کا یہ شعر بھی پڑھا کرتے تھے ؎ جائے کس واسطے اے دردؔ میخانے کے بیچ اور ہی مستی ہے اپنے دل کے پیمانے کے بیچ