معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
بابِ رحمت پر ترے اے شاہِ جاں دے رہا ہوں دستکِ آہ و فغاں کٹ گئی اک عمر میری اس طرح مضطرب ہو مرغ بسمل جس طرح تیری رحمت کا اگر ہو فتح باب بندۂ عاجز ترا ہو کامیاب آہ رہ سکتا ہے کب کوئی حجاب فضل کا تیرے جو نکلے آفتاب اے خداوندا ترے افضال سے طالبِ رحمت ہیں ہم بد حال سے مانگتا ہوں تجھ سے تیرے فضل کو واسطہ اُس فضل کا خود فضل ہو دین ہی کی چاکری تو کر نصیب یاد ہی میں رکھ تو اپنی اے حبیب ’’جز بذ کرِ خویش مشغولم مکن از کرم از عشق معز و لم مکن‘‘ (رومی ؒ) بے مشقت یہ ہوس گو جرم ہے مجھ کو اس نالائقی پر شرم ہے پر خدا وندا کہاں جاؤں بھلا کیا کوئی در ہے ترے در کے سوا ہمت و محنت کہ توفیقِ عمل سب ترے محتاج ہیں اے عز و جل جس کو تیری راہ سے جو بھی ملا وہ ترے دست ِ کرم سے ہی ملا ناخنِ تدبیر گھس جانے کے بعد پردۂ اسباب جل جانے کے بعد بس تری جانب ہے اب میری نگاہ ناؤ میری پار ہو میرے اِلٰہ