معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
نفس تو چاہتا ہے اپنے مزے کو اور اللہ چاہتا ہے اپنی غلامی کو۔ نفس چاہتا ہے کہ لذّت کے جتنے چور دروازے ہیں ہر دروازے سے لُطف اڑائیں، آنکھو ں سے بھی خوب مزہ حاصل ہو، کانوں سے بھی خوب لطف حاصل ہو، ہاتھ پاؤں سے بھی خوب مزہ حاصل ہو، نفس کا حکم یہی ہے کہ جس طرح بن پڑے حلال و حرام، جائز و ناجائز نفع اور نقصان کچھ نہ دیکھو، بس ہم کو تو لطف چاہیے، تو بھائی! اس طرح اللہ کہاں ملتا ہے؟ اللہ تو جب ملتا ہے جب اللہ کی مرضی کے تابع ہوں، جب تک ہم نفس کے غلام ہیں تو اللہ کیسے مل سکتا ہے؟ اسی کو حضرت عارف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ تا ہوا تازہ است ایمان تازہ نیست کیں ہوا جز قفلِ آں دروازہ نیست ’’مولانا فرماتے ہیں کہ جب تک نفس کی خواہشات تازہ ہیں اس وقت تک ایمان میں تازگی نہیں ہے، کیوں کہ یہ خواہشاتِ نفسانیہ اس دروازۂ غیب کے لیے قفل ہیں۔‘‘ اب سوال ہوتا ہے کہ پھر نفس کو توڑنے کا کیا طریقہ ہے؟ اس سوال کا جواب مولانا دوسرے شعر میں ارشاد فرماتے ہیں ؎ ایں ہوا رانشکند اندر جہاں ہیچ چیزے جُز بسایہ ہمرہاں مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خواہشات کو اس جہاں میں کوئی توڑنے والا نہیں ہے، بجز ایک چیز کے، وہ کیا ہے؟ سایۂ ہمرہاں، سایۂ ہمرہاں کیا چیز ہے؟ اس کو مولانا اس شعر میں فرماتے ہیں ؎ یار باید راہ را تنہا مرو بے قلادزا ندریں صحرا مرو ایک یار چاہیے،راستے میں تنہا مت چلو، بدون کسی راہ بر کے اس وادیٔ لق و دق میں قدم مت رکھو۔اس کی تائید قرآنِ کریم کی اس آیت سے ہوتی ہےوَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ اور سچوں کے ساتھ رہ پڑو۔