معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ہوگیا۔ رَبَّنَا مَاخَلَقْتَ ھٰذَابَاطِلًا فکر کے سمندر میں ڈوب کر جواہرِ عرفانی نکال لائے،اور اب خاموش رہنا ضبط سے باہر ہے۔ تاب زنجیرندارد دلِ دیوانۂ ما اب اللہ تعالیٰ سے باتیں شروع ہوگئیں، اللہ اکبر! فکر سے کس قدر قرب نصیب ہوتا ہے، حق تعالیٰ سے عرض کررہے ہیں وہی جواہرِ عرفانی مناجات میں پیش کررہے ہیں، کہ اے ہمارے رب! جو مصنوعات ہم آسمانوں اور زمینوں میں دیکھ رہے ہیں ان کو آپ نے باطل یعنی لغو اور عبث نہیں پیدا فرمایا ہے، کیوں کہ ان ہی چیزوں کو دیکھ کر ہم آپ کے وجود پر استدلال کرکے توحید اختیار کرتے ہیں اور شرک و کفر کی تاریکی سے نجات پاتے ہیں۔ حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ محدّث دہلوی نے اس آیت کی یوں تفسیر فرمائی ہے کہ عبث نہیں بنایا یعنی اس عالم کی انتہا ہے دوسرے عالم میں۔ کثرت ِ ذکر کے انوار سے ان کی سمجھ ایسی نورانی ہوگئی جس سے اپنی غلامی اور بندگی کا اور حق تعالیٰ کی عظمتِ شان کا استحضار راسخ نصیب ہوگیا ، فکر نورانی نفس کے حوالے نہیں ہوتی ہے، اس کی نگاہ ہر وقت حق تعالیٰ کی جلالتِ شان اور عظمت پر اور اپنی بےکسی، عاجزی اور محتاجی پر ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ عارفین باوجود کثرتِ ذکر اور فکر کے عُجب اور خود بینی میں مبتلا نہیں ہوتے۔ چناں چہ حق تعالیٰ حضراتِ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی اسی شانِ عبدیت کو آگے بیان فرمارہے ہیں کہ یہ لوگ وہ ہیں کہ رات دن ذکر اور فکر میں لگے رہنے کے باوجود میری عظمت ا ور کبریائی کا استحضار ان کو خائف اور غمگین رکھتا ہے، اور اس درجہ خوف زدہ رکھتا ہے کہ اپنے کو جہنم کے قابل سمجھ کر یوں دعا کررہے ہیں کہ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ’’اے ہمارے رب! ہم کو عذابِ جہنم سے نجات عطا فرما ‘‘ہم جیسے لوگ ہوں تو اس قدر ذکر اور فکر کی توفیق پر نہ جانے اپنے آپ کو کیا سمجھ بیٹھیں۔