معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
کرتا، بلکہ اصل مقصود اپنے خاندان کے متقی ہونے کی درخواست ہے یعنی بجائے اس کے کہ ہم افسر ِخاندان ہیں ہم کو افسَرِ خاندان ِ متقی بنادیجیے۔ یہاں تک تو عبادالرحمٰن کے اوصاف کا تذکرہ تھا، یعنی ہمارے باخبر بندوں میں ایسی ایسی شانیں ہوتی ہیں، ان کے یہی اوصاف مخبری کرتے ہیں، پس ان علامتوں سے ہمارے باخبر بندوں کو ڈھونڈ لو، اَلرَّحۡمٰنُ فَسۡـَٔلۡ بِہٖ خَبِیۡرًاجب کوئی باخبر بندہ مل جائے تو اس کی صحبت میں رہ کر حق تعالیٰ کی معرفت حاصل کرو، ’’رحمٰن کی شان کو کسی باخبر سے پوچھو۔‘‘ عبادالرحمٰن کے اوصاف کے بعد آگے حق تعالیٰ ان کی جزا ارشاد فرماتے ہیں یعنی ایسے لوگوں کو بہشت میں رہنے کو بالا خانے ملیں گے بوجہ اُن کے دین و اطاعت پر ثابت قدم رہنے کے، اور ان کو اس بہشت میں فرشتوں کی جانب سے بقا کی دعا اور سلام ملے گا، اور اس بہشت میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ،وہ کیا اچھا ٹھکانا اور مقام ہے۔ یہ حق تعالیٰ کا خاص انعام ہے، اور حضرت مرشد پاک رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض و برکات ہیں کہ اس خاص ترتیب کے ساتھ یہ مضمون اس وقت میں القاء ہوا ہے جب کہ میں اٹھاسی (۸۸) سال کی عمر میں قدم رکھنے والا ہوں۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جِنّ اور انسان کی پیدایش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے، دلیل کیا ہے؟ جن اور انسان کے پیدا کرنے والے نے فرمایاہے: وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾؎ میں نے جِنّ اور انسان کو اس واسطے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے لِیَعْبُدُوْنِ کی تفسیر لِیَعْرِفُوْنِ سے فرمائی ہے، یعنی جِنّ اور انسان کو اسی واسطے پیدا کیا ہے کہ مجھے پہچان لیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیسے پہچانیں؟ طریقۂ پہچان کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ------------------------------