معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
جب مہرنمایاں ہوا سب چُھپ گئے تارے وہ ہم کو بھری بزم میں تنہا نظر آیا (مجذوؔب) ایسی قوی اور قادرِ مطلق ذات کے سامنے عارف کی رُوح کب اپنی ضعیف اور فانی قوت پر نظر کرسکتی ہے؟یہی راز ہے کہ اَلْفَانِیْ لَایُرَدُّ جب بندہ مقرب اور مقبول ہوجاتا ہے تو واپس نہیں کیا جاتا، جس طرح کوئی بالغ نابالغ نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ طریق میں چل کر گمراہ ہوگئے وہ غیر و اصل تھے اور غیر عارف تھے۔ انانیت اور خود بینی کا مرض قلتِ معرفت کے سبب سے پیدا ہوتا ہے۔ عارفین میں غلبۂ عبودیت اور فنائیتِ کاملہ کے جو آثار ظاہر ہوتے ہیں اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے اللہ کی عظمت کو پہچان لیا ہے۔ کثرتِ ذکر و طاعت کے انوار میں ان کے قلوب نے اپنی عبدیت اور خواری اور حق تعالیٰ کی کبریائی کا مشاہدہ کرلیا ہے اور قاعدہ کلّیہ ہے کہ تُعْرَفُ الْاَشْیَاءُ بِاَضْدَادِہَا، ہر شئے اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ جب عظمتِ الٰہیہ کی پہچان ہوگئی تو اپنی بے چارگی اور بندگی خود بخود منکشف ہوگئی، مثلاً ایک ادنیٰ چوکیدار گاؤں میں تو ناز سے چلتا ہے، لیکن عین اسی ناز اور تبختر کی حالت میں کپتان سامنے آکر کھڑا ہوجائے تو سب ناز و شوکت بھول جاتا ہے، اب تو حواس بھی بجا نہیں رہ سکتے، رعشہ براندام حضورحضور کرنے لگتا ہے، کپتان کی عظمت وشوکت کے سامنے اپنی ہستی اور صفاتِ ہستی کو بھول جاتا ہے۔یہ تو ایک ادنیٰ مثال ہے۔ جب ایک بندہ دوسرے بندے کے سامنے اس طرح دَب جاتا ہے اور مٹ جاتا ہے تو پھر اللہ تو اللہ ہی ہے ؎ نیست کس را زہرۂ چون و چَرا ہست سلطانی مسلّم مرو را کسی کا پتّہ نہیں ہے کہ ان کی عظمت وکبریائی کے سامنے چون و چرا کرسکے، خاص کر ان ہی کے لیے ہر سلطانی مسلّم ہے۔