معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اتصالے بے تکیف بے قیاس ہست ربّ الناس را با جانِ ناس تو اس معیّت ِ حق کے ہوتے ہوئے ان کو موشانِ تاریکی کی جنس سے مت سمجھو، جن کی روحیں صرف چاہِ دنیا میں لذّاتِ نفس کے ساتھ مشغول ہیں۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں ؎ نفس تو تام است در نقل و نبیذ دانکہ روحت خوشۂ غیبی ندید ’’تیرانفس جب تک نقل ونبیذ یعنی شراب و کباب میں مست ہے توتویقین کرلے کہ تیری رُوح نے ابھی خوشۂ غیبی نہیں دیکھاہے‘‘یعنی عالَمِ غیب کے فیوض و برکات اور انوار و تجلّیات سے تیری رُوح نا آشنا و بے خبر ہے، برعکس اہل اللہ کے کہ دنیائے مردار سے فارغ ہیں، اُن کے قلوب دنیا کی محبت سے فارغ ہیں۔ حضرت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ روحِ عارف باللہ کی طرف سے حکایتاًبیان فرماتے ہیں ؎ بازِ سلطانم گشم نیکو پیَم فارغ ازمردارم و کرگس نیَم ’’میں بازِ شاہی ہوں یعنی میری رُوح قربِ شاہ سے مشرف ہے، اس لیے میری نگاہ مُردار خوری سے بے پروا ہے‘‘ کیوں کہ میری وہ صفات اور رذائل جو مُردار خوری کی طرف مائل کرتے تھے اب اخلاقِ الٰہیہ سے متبدل ہوگئے ہیں جس کے سبب سے اب میرا یہ حال ہے ؎ چوں بمردم از حواسِ بوالبشر حق مرا شد سمع و ادراکِ بصر نورِ او دریمن و یسر و تحت و فوق بر سرو بر گردنم مانند طوق ’’جب میں نے اپنے اخلاقِ رذیلہ کو مرشدِ کامل کے فیض صحبت سے فنا کردیا تو اب حق تعالیٰ کے نور سے سنتا ہوں، حق تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہوں، حق تعالیٰ کا نور اپنے