معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
تاز گئی ہر گلستانِ جمیل ہست بر بارانِ پنہانی دلیل مولانا فرماتے ہیں کہ جب انوار و برکات کسی شخص میں دیکھو تو سمجھ لو کہ یہ صاحبِ نسبت ہے کہ آبِ نسبت سے یہ پھول کھلے ہیں۔ اسی کی نسبت پروردگارِ عالم نے حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی تعریف میں ایک جگہ ارشاد فرمایا ہے: سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ یعنی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اپنے چہروں کے نور سے اور لوگوں میں پہچانے پڑتے ہیں، تہجد کی نمازوں سے، صاف نیت سے ان کے چہروں پر نور ہے۔ جس طرح بارش کا مخبر سبزہ زار ہوتا ہے، اگر شب کو مثلاً بارش ہو اور کوئی نہ دیکھے، کیوں کہ نیند میں سب سوئے ہوئے ہوتے ہیں، اس وقت میں ہر باغ باجمال کی تازگی جو صبح کو نظر آوے گی بارانِ مخفی پر علامت ہوگی۔ (ازکلیدِ مثنوی، دفترِ ششم، ص:۶۶) ہَوْنَ کے معنیٰ لغت میں ذلّت کے ہیں، اسی ہَوْنَ کو مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے اس شعر میں بیان فرمایا ہے ؎ نفس از بس مدحہا فرعون شد کُنْ ذلیل النفس ہَوْنًا لَا تَسُدَّ نفس اپنی تعریفوں سے فرعون ہوجاتا ہے، علاج کیا ہے؟ فرماتے ہیں کہ ذلیل النفس ہوجاؤ،یعنی جب بندے ہو تو غلام کی خُوبُو تمہارے اندر سے نکلنی چاہیے، بڑائی تو صرف خدا تعالیٰ کی شان ہے، ایک بوند پانی سے جو پیدا ہوا ہو اس کے لیے تو اور بھی تکبّر زیبا نہیں۔ خبردار! وہ ہَوْن جو عبادالرحمٰن کی خاص صفت ہے اس کو ہاتھ سے نہ جانے دینا اور اپنی طرف سے کبھی سرداری مت چاہنا۔ ایک بار مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا کہ حضرت! آپ کی طرف روز بروز ایک خلق متوجہ ہوتی جارہی ہے، مولانا نے عجیب جواب ارشاد فرمایا،