معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
مقرب ہوتا ہے، اس کی دینی سمجھ بہت رفیع اور باریک بیں ہوجاتی ہے اور اسی سمجھ سے توحید پر استدلال کرتا ہے۔ وہ عقل سے غور کرتاہے، کہ دنیا میں کوئی چیز جب عاقل انسان بناتا ہے تو بنانے سے پہلے اپنی صنعت کا مقصد ذہن میں متعین کرلیتا ہے، اگر بدون کسی مقصد کے کوئی شخص کوئی چیز تیار کرلے تو اس کو پاگل اور دیوانہ کہا جاتا ہے۔ پھر حق تعالیٰ تو حکیمِ مطلق ہیں، ان کا کوئی فعل حکمت سے خالی ہونا ناممکن اور شانِ الوہیت کے منافی ہے۔ اس امر کو عقلاً تسلیم کرنے کے بعد اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سارا جہاں آسمان، زمین، چاند، سورج، ستارے، چرند، پرند، جمادات،نباتات انسان کی حفاظت اور تربیت کے لیے مخلوق ہوئے ہیں تو یہ انسان جس کے لیے اتنے وسیع کارخانے کا اہتمام کیا گیا ہے اس کو کس رفیع اور اہم مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جو عقلاً انسان کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔اب اس کا جواب کون دے؟ اس عظیم ترین مقصد کا علم کس سے حاصل کیا جائے؟ یہ بھی ایک عقلی مسئلہ ہے، جس کا جواب خود انسان کی عقل دیتی ہے کہ ہماری پیدایش کا صحیح مقصد ہمارا پیدا کرنے والا ہی جان سکتا ہے۔ بندوں کی طرف سے حالاً اور اضطراراً جب یہ سوال پیدا ہوا تو حق تعالیٰ شانٗہ کی رحمتِ کاملہ نے بندوں کے اس اضطراری سوال کا جواب ارشاد فرمادیا: وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ ؎ اور میں نے جن اور انسان کو عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سیّدالمفسرین ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی تھی کہ اے اللہ! ان کو علمِ تفسیر میں خاص درک و فہم عطا فرما۔چناں چہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اپنی ’’تفسیر ابنِ عباس‘‘ میں لِیَعْبُدُوْنِ کی تفسیر لِیَعْرِفُوْنِ؎سے فرمائی ہے، اور صاحبِ ’’جَلالین‘‘ نے بھی ------------------------------