معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
کہ جنت کا خزانہ مل گیا۔ جب یہاں رحمت فرمانے لگے تو وہاں بھی محروم نہ فرمائیں گے، اور ان کی رحمت جب سائلین کو بھیک عطا کرتی ہے تو وہ عطا اُن کی شان کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ پس بندہ جب بھیک کا پیالہ اپنے فانی حول اور قوّت سے خالی کرکے حق تعالیٰ کے دربار میں پیش کردیتا ہے تو حق تعالیٰ کا کرم جوش میں آکر جنت کا خزانہ سونپ دیتا ہے، جس کے ثمرات اور نعمتوں کو کبھی فنا نہیں،مَا عِنۡدَکُمۡ یَنۡفَدُ وَ مَا عِنۡدَ اللہِ بَاقٍ ؕ ’’جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ فانی ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی ہے۔‘‘ جب اپنے حول اور اپنی قوت کو بندہ اپنی ذات سے نفی کرکے حق تعالیٰ کے خزانےمیں جمع کردیتا ہے تو حق تعالیٰ کے یہاں سے عطا فرمودہ حول اور قوّت سے جو اعمالِ حسنہ پیدا ہوتے ہیں وہ غیر فانی ہوتے ہیں،اور اس کی غیر فانی جزا اور ثمرات جنّت تک پہنچادیتے ہیں، حتیٰ کہ شہداء جس جسم کو حق تعالیٰ کی راہ میں قربان کرتے ہیں وہ جسم بھی باقی ہوجاتا ہے،وہ ایسے باقی ہے کہ ان کے خزانےمیں پہنچ کر فانی بھی باقی ہوجاتا ہے، کیوں کہ حق تعالیٰ نے قاعدۂ کلیہ بیان فرمادیا مَا عِنۡدَکُمۡ یَنۡفَدُ وَ مَا عِنۡدَ اللہِ بَاقٍ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ فانی ہے اور جو حق تعالیٰ کے پاس ہے وہ باقی ہے۔ پس انسان اپنی تمام قوتِ بینائی، شنوائی، گویائی کو اللہ کی مرضی کے مطابق خرچ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق چلتا ہے، دیکھتا ہے، سنتا ہے، تو یہ سب اعمال باقی بن جاتے ہیں،اور خزانۂ الٰہیہ میں جمع ہوجاتے ہیں ؎ رنگِ صدق و رنگِ تقویٰ و یقیں تا ابد باقی بود بر عابدیں پس اپنی قوتوں کی نفی کرکے باقی سے تعلق جوڑ لو۔ حق تعالیٰ کی عنایت سے جو حول اور قوّت عطا ہوگی وہ ایسی باقی ہوگی کہ مع اپنے ثمرات اعمالِ حَسنہ کے تم کو جنّت میں لے جاوے گی،اور اپنی خواہشاتِ نفسانیہ میں اگر یہ قوّتیں خرچ ہوتی رہیں گی تو وہ سب فانی ہوکر مستوجبِ سزا ہوتی ہیں۔ ہدایت اور اصلاح کے لیے اس ورد کی کثرت نہایت مفید ہے اور عجیب التاثیر