معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
کرنے کے،لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بندوں کو درخواست کا مضمون بتلادیا کہ اس طرح سے عرض کرو کہ اے اللہ! نہ گناہوں سے پھرنے کی طاقت ہے نہ نیک اعمال کرنے کی قوت ہے مگر آپ کے دو ناموں علیّ اور عظیم کی مدد سے۔ اس دعا میں اپنی بےچارگی پیشِ نظر ہے کہ ہم ضعیف ہیں، ہماری نگاہ تو صرف آپ کے کرم پر ہے، بس اس حقیر پر کرم فرمادیجیے،کہ اس کی نگاہ جب صرف ہماری ذات پر ہے تو اس کو محروم کیسے کروں۔ میرے علو اور میری عظمت کی شان کے خلاف ہے کہ میں ایسے عاجز پر رحم نہ کروں اور خالی ہاتھ اپنے دربار سے واپس کردوں۔ جب اپنے حول اور قوت پر نگاہ ہوتی ہے اس وقت وہاں سے مدد نہیں آتی، کیوں کہ رحمت کا پانی نشیب اور پستی تلاش کرتا ہے، یہی راز ہے کہ جب مؤذن حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ ’’آؤنماز کے لیے‘‘ کہے تو لَبَّیْکَ یَارَبِّیْ! حاضر ہوں اے میرے رب کی تعلیم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دی، بلکہ یہ ارشاد فرمایا کہ اس وقت اپنی عاجزی اور ضعف ظاہر کرو،یعنی لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَاِلَّا بِاللہِ کہو۔’’اے اللہ! نہیں طاقت ہے گناہوں سے پھرنے کی اور نیک عمل کرنے کی مگر آپ کی مدد سے۔‘‘ ایک بزرگ تحریر فرماتے ہیں کہ جو شخص نماز سے قبل لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ کو اس کے معنیٰ کا خیال کرکے پڑھ لیا کرے تو اس کی نماز بہت عمدہ نماز ہوگی اور کثرتِ وساوس سے محفوظ رہے گی۔ اب کوئی کہے کہ صاحب!یہاں تو جو کچھ حول اور قوّت تھی اس کی بھی نفی ہورہی ہے، تو خزانہ جنت کا بھلا کیا ہاتھ لگے گا؟ تو جواب یہ ہے کہ یہ سلب اور نفی کس سے ہورہی ہے؟ اپنے بودے لچر نفس سے،اور اس حول اور قوّت کو کہاں جوڑا جارہا ہے؟ اس ذاتِ پاک کے خزانے سے جو باقی ہے۔یہ خبر حکم میں انشاء کے ہے، یعنی أَسْأَلُکَ الْحَوْلَ وَالْقُوَّۃَ بِعَوْنِ اللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِپس ازراہِ نیستی و عبودیت سلب ونفئ حول اور قوت سے جلبِ رحمت کا سوال ہے،اور جب اُن کی رحمت ہماری دستگیری فرمانے لگے تو سمجھ لو