معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَیۡہِ ۚ وَ اِلَّا تَصۡرِفۡ عَنِّیۡ کَیۡدَہُنَّ اَصۡبُ اِلَیۡہِنَّ وَ اَکُنۡ مِّنَ الۡجٰہِلِیۡنَ ﴿۳۳﴾ فَاسۡتَجَابَ لَہٗ رَبُّہٗ فَصَرَفَ عَنۡہُ کَیۡدَہُنَّ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۳۴﴾؎ حضرت یوسف علیہ السّلام نے (جو یہ باتیں سنیں اور دیکھا کہ یہ عورت تو بے ڈھب پیچھے پڑی ہے اور سب اسی کی ہاں میں ہاں ملاتی ہیں، تو)حق تعالیٰ سے دعا کی کہ اے میرے رب! جس (واہیات) کام کی طرف یہ عورتیں مجھ کو بلارہی ہیں اس سے تو جیل خانے میں جانا ہی مجھ کو زیادہ پسند ہے، اور اگر آپ ان کے داؤ پیچ کو مجھ سے دفع نہیں کریں گے تو ان کی صلاح کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور نادانی کا کام کر بیٹھوں گا ۔ سو اُن کی دعا اُن کے رب نے قبول کی، اور ان عورتوں کے داؤ پیچ کو ان سے دور رکھا، بے شک وہ دعاؤں کا بہت سننے والا اور ان کے احوال کا خوب جاننے والا ہے۔ اتنی شہادتوں کے باوجود حضرت یوسف علیہ السلام کی عبدیتِ کاملہ کو دیکھیے،فرماتے ہیں: وَ مَاۤ اُبَرِّیُٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵۳﴾؎ میں اپنے نفس کو (بالذات) بَری (اور پاک) نہیں بتلاتا (کیوں کہ ) نفس تو (ہر ایک کا) بُری ہی بات بتلاتا ہے ، بجز اس نفس کے جس پر میرا رب رحم کرے (اور اس امر بالسُّوء کا مادّہ نہ رکھے، جیسے انبیاء علیہم السّلام کے نفوس ہوتےہیں، مطمئنہ ّ ، جن میں یوسف علیہ السلام کا نفس بھی داخل ہے، خلاصۂ مطلب یہ ہوا کہ میری نزاہت وعظمت میرے نفس کا ذاتی کمال نہیں کہ تخلّف محال ہو، بلکہ رحمت و عنایتِ الٰہیہ کا اثر ہے اس لیے وہ امر بِالسُّوء نہیں کرتا ،ورنہ جیسے اوروں کے نفوس ہیں ویسا ہی میرا ہوتا) بلاشبہ میرا رب بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے۔ (بیان القرآن) نفس کی صفت اَمَّارَۃْ بِالسُّوْء بروزن فَعَّالَۃْ صیغۂ مبالغہ ہے، یعنی بہت امر ------------------------------