معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک ایسی ہے جس نے مجھ کو پیدا کیا، پھر وہی میری مصلحتوں تک راہ نمائی کرتا ہے، یعنی عقل اور فہم دیتا ہے، جس سے نفع و ضرر کو سمجھتا ہوں اور جو کہ مجھ کو کھلاتا پلاتا ہے، اور جب میں بیمار ہوجاتا ہوں جس کے بعد شفا ہوجاتی ہے تو وہی مجھ کو شفا دیتا ہے۔ (بیان القرآن) حضرت مرشدِ پاک رحمۃ اللہ علیہ وَ اِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِکے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ مرض جو کہ ایک گو نہ نقص یعنی عیب کی بات ہے اس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی طرف منسوب کیا، اور آگے جو فرمایا: وَ الَّذِیۡ یُمِیۡتُنِیۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡنِ ﴿ۙ۸۱﴾ اور جو مجھ کو وقت پر موت دے گا، پھر قیامت کے روز مجھ کو زندہ کرے گا۔ تو موت کی نسبت حق تعالیٰ کی طرف جو کی اس میں شبہ نہ کیا جاوے کہ موت بھی تو عیب اور نقص ہے، پھر اس کی نسبت حق تعالیٰ کی طرف کیوں کی؟ کیوں کہ موت کا دینا بوجۂ عموم کے نقص سے نکل گیا۔ آگے حضرت ابراہیم علیہ السّلام عرض کرتے ہیں:وَ الَّذِیۡۤ اَطۡمَعُ اَنۡ یَّغۡفِرَ لِیۡ خَطِیۡٓئَتِیۡ یَوۡمَ الدِّیۡنِ ﴿ؕ۸۲﴾؎اور جس سے مجھ کو یہ امید ہے کہ میری خطاؤں کو قیامت کے روز معاف کردے گا۔‘‘ اس میں دو ادب ہیں: ایک تو یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام معصوم اور خلیل اللہ تھے، لیکن اس درجے مقبولیت اور محبوبیت اور معصومیت کے باوجود اپنی اجتہادی چُوک کو خطیئہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کے سامنے اپنی عبودیت کا یہی حق تھا۔ دوسرا ادب یہ تھا کہ باوجود رسالت اور خُلّت کے اپنی مغفرت کے لیے یقین کا لفظ نہیں استعمال فرمایا، تاکہ اللہ تعالیٰ پر کسی امر کا واجب ہونا ظاہر نہ ہو۔ عبدیتِ کاملہ کا مقتضا یہی تھا کہ حق تعالیٰ سے مغفرت کی امید رکھی جائے۔ (از بیان القرآن) ------------------------------