معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
اس میں عیب ڈال دوں،اور وجہ اس کی یہ تھی کہ ان لوگوں سے آگے کی طرف ایک ظالم بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی کو زبردستی پکڑ رہا تھا۔سو اگر ان کی کشتی میں عیب نہ ڈالا جاتا تو اس کو بھی چھین لیتا،اور ان غریبوں کا ٹکڑا مارا جاتا۔ پس اس توڑنے میں یہ مصلحت تھی۔(بیان القرآن) حضرت خضر علیہ السلام کا کشتی کو عیب دار کرنا اگرچہ خدا تعالیٰ ہی کے حکم سے تھا مگر ادباً اس فعل کی نسبت حق تعالیٰ کی ذاتِ پاک کی طرف نہ کی اور یوں کہا کہ’’ میں نے یہ چاہا۔‘‘ اسی طرح جس لڑکے کو حکمِ خدا سے مار ڈالا اس کو بھی اپنی طرف منسوب کیا: فَاَرَدۡنَاۤ اَنۡ یُّبۡدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیۡرًا مِّنۡہُ زَکٰوۃً وَّ اَقۡرَبَ رُحۡمًا ﴿۸۱﴾؎ پس ہم کو یہ منظور ہوا کہ بجائے اس کے ان کا پروردگار ان کو ایسی اولاد دے جو پاکیزگی میں اس سے بہتر ہو اور محبت کرنے میں اس سے بڑھ کر ہو۔ اور جب اس دیوار کا ذکر آیا ہے جس کی بنیاد میں دو یتیم بچوں کا مدفونہ مال تھا، اس کے متعلق یوں عرض کیا: فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنۡ یَّبۡلُغَاۤ اَشُدَّہُمَا وَ یَسۡتَخۡرِجَا کَنۡزَہُمَا ٭ۖ رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ۚ سو آپ کے رب نے اپنی مہربانی سے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جاویں اور اپنا دفینہ نکال لیں۔ حضرت خضر علیہ السلام نے پہلے دونوں کاموں کویعنی کشتی کے عیب دار کرنے اور لڑکے کے مار ڈالنے کے ارادوں کو اپنی طرف منسوب کیا اور دیوار اٹھانے کے ارادے کو حق تعالیٰ کی طرف منسوب کیا۔ عبدیتِ کاملہ کی یہی شان ہوتی ہے، حالاں کہ ہر کام خدا تعالیٰ ہی کے حکم سے کیا تھا، جیسا کہ آگے فرماتے ہیں: وَ مَا فَعَلۡتُہٗ عَنۡ اَمۡرِیۡ ؎ اور کوئی کام میں نے اپنی رائے سے نہیں کیا۔ لیکن کیسا ادب کو نباہا ہے۔ سبحان اللہ! ------------------------------