معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
عاجزی کے اظہار کے ناز اور خوبی مت دکھاؤ۔ جب تم یوسف نہیں ہو،یعنی باعتبار اپنی ذات کے فانی، عاجز، محتاج ہو تو حضرت یعقوب علیہ السّلام کی طرح گریہ وزاری کی راہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اختیار کرو۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس سادے عنوان میں عجیب اثر پیدا فرمادیا،کیوں کہ : مَنْ تَوَاضَعَ لِلہِ رَفَعَہُ اللہُ جو اپنے کو اللہ کے لیے گرادیتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ بلند فرمادیتا ہے۔ چناں چہ جب یہ والا نامہ بلقیس نے دیکھا تو اس کا دل مرعوب ہوگیا، اور اس نے اپنے درباریوں سے کہا یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَؤُا اِنِّیۡۤ اُلۡقِیَ اِلَیَّ کِتٰبٌ کَرِیۡمٌ ؎ اے اہل دربار! میرے پاس ایک خط باوقعت ڈالا گیا ہے۔ پھر بلقیس نے درباریوں سے کہا کہ اس خط کے جواب میں، میں کچھ تحفے بھیجتی ہوں، اگر حضرت سلیمان علیہ السّلام نے قبول کرلیا تو سمجھ لینا کہ دنیا دار ہیں، ان کا مقابلہ کچھ مشکل نہیں ہوگا اور اگر انہوں نے تحفے واپس کردیے تو یقین کرلینا کہ وہ اللہ کے سچے نبی ہیں، اس صورت میں ان کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔ چناں چہ جب تحفے واپس آگئے تو بلقیس کو یقین آگیا کہ حضرت سلیمان علیہ السّلام اللہ کے نبی ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السّلام نے اپنے اہلِ دربار سے فرمایا کہ تم میں کوئی ایسا ہے کہ بلقیس کا تخت قبل اس کے کہ وہ میرے پاس مطیع ہوکر آویں حاضر کردے۔ ایک قوی جِنّ نے جواب دیا کہ حضور!میں قبل اس کے کہ آپ اجلاس سے اٹھیں تخت کو حاضر کردوں گا اور عرض کیا: وَ اِنِّیۡ عَلَیۡہِ لَقَوِیٌّ اَمِیۡنٌ ﴿۳۹﴾ ؎ اور میں اس پر طاقت رکھتا ہوں اور امانت دار ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نوکر مضبوط اور امانت دار رکھنا چاہیے، قوّت اور امانت دونوں صفتیں ضروری ہیں۔ ------------------------------