معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
کے لیے اپنی جھونپڑی کا سڑا ہوا بانس بادشاہ کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے جارہاہو،اور اس ہدیۂ حقیر پر مغرور بھی ہو کہ اتنی بڑی چیز شاہی محل کے لیے لے جارہا ہوں۔ اس چمار کے غرور کی وجہ کیا ہے؟ اس کو اپنے سڑے ہوئے بانس پر ناز کیوں ہے؟ اس لیے کہ اس نے شاہی محل کبھی دیکھا نہیں ہے، راستے میں ہے، جب شاہی محل کی شان اور شوکت دیکھ لے گا تو اس وقت اپنے سڑے بانس کی حقیقت معلوم ہوجاوے گی ؎ گربہ بینی یک نفس حسنِ ودود اندر آتش افگنی جانِ ودود گر بہ بینی کرّ و فرّ قربِ را جیفہ بینی بعد ازیں ایں شرب را (رومی) ۱) اگر تو حق تعالیٰ کے حسن کو ایک نفس بھی مشاہدہ کرلے تو اپنی جانِ عزیز کو آتش میں ڈال دے، یعنی اللہ پر قربان ہوجائے۔ ۲) اگر تو قربِ خداوندی کی جلالتِ شان اور کرّ وفرّ دیکھ لے تو سارے جہاں کے عیش و آرام کے اسباب ہیچ اور مُردار نظر آنے لگیں۔ عابد غیر عارف کا یہی حال ہوتا ہے کہ عظمتِ الٰہیہ کی معرفت نہ ہونے سے اس کی نظر اپنی عبادت پر تو ہوتی ہے لیکن حق تعالیٰ شانہٗ کی عظمت اور کبریائی پر نہیں ہوتی۔ اُس نے اس چمار کی طرح ابھی شاہی محل کا مشاہدہ نہیں کیا ہے۔ ابھی منزل سے دور ہے، اس لیے اپنی ٹوٹی پھوٹی اور کھوٹی عبادت پر اس قدر نازاں ہے۔ اور عارف کی نظر حق تعالیٰ شانٗہ کی عظمت اور جلالت پر ہوتی ہے، اس لیے باوجودیکہ اس کی دو رکعت بے سمجھ عابد کی ہزار رکعت کے برابر ہے لیکن عبادت کی اس بڑی کمیت اور کیفیت کے باوجود اپنے کو اللہ کی عظمت کے سامنے کتوں سے بدتر سمجھتا ہے، کہ نہ معلوم میاں کو بھی پسند ہے یا نہیں؟ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے شایانِ شان اپنی غلامی اور عبادت کو ناقص پاتا ہے۔