معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
چوں کہ رام پور پڑھنے کے زمانے میں حضرتِ والا کو پہلوانی کا بھی شوق تھا اور اس غرض سے حکیم عبدالبید خاندہلوی مرحوم کے استاد تفضل حسین خان سے کشتی بھی سیکھتے تھے،اس لیے قوتِ جسمانی بھی نہایت قوی تھی اور لاٹھی اس قدر قوت سے مارتے تھے کہ بڑے بڑے طاقتوروں کے قدم ہل جاتے تھے۔ حضرتِ والا کو فنِ سپہ گری سے اس درجہ شوق تھا کہ رمضان شریف میں روزہ رکھے ہوئے ۸ بجے دن تک اور بعد تراویح بھی لاٹھی کی مشق فرماتے تھے۔ تھانہ بھون میں بھی اپنے پیرومرشد کے حکم سے بعض اہلِ علم کو لاٹھی سکھاتے تھے۔ ایک بار حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرتِ والا کی فنِ سپہ گری دیکھ کر فرمایا کہ جب آپ لاٹھی کے ہاتھ دکھارہے تھے تو مجھے جوش آرہا تھا۔ حضرتِ والا حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار ارشاد فرمایا کہ ہمارے مولوی عبدالغنی صاحب ہزار آدمیوں کے مقابلے کے لیے تنہا کافی ہیں اور فرمایا کہ اگر ہم کو کبھی فوج کی ضرورت پڑے گی تو ہماری فوج اعظم گڑھ میں ہے۔ حضرتِ والا کے مزاج میں دین کے خلاف امور کو دیکھ کر سخت تغیر ہوجاتا اور جوشِ غضب میں مخالفینِ دین کی ہمیشہ بے لاگ بیخ کنی فرماتے رہے۔ ایک بار ایک مولوی صاحب نے جو حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مجازِ صحبت بھی تھے، حضرت والا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ حضرت! مولانا عبدالغنی صاحب میں غصہ بہت ہے۔ تو حضرت حکیم الاُمّت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت والا پھولپوری سے فرمایا کہ آپ کی یہ فلاں مولوی صاحب شکایت کررہے تھے، تو میں نے ان کو یہ جواب دیا کہ اپنے آدمیوں میں ایک گرم آدمی کی بھی ضرورت ہے، ورنہ دشمن کھا جائیں گے۔ حضرت والا پھولپوری احقر سے ہمیشہ فرماتے رہے کہ اگر کہیں جہاد شروع ہوا تو میں فوراً شریک ہوجاؤں گا اور ارشاد فرمایا کہ میں نے جوانی کے وقت سے حق تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی درخواست پیش کردی ہے کہ ہمیں شہید کرکے دنیا سے اٹھائیےگا اور اس بات کو جب حضرت والا نے احقر سے نقل فرمایا ہے، اس وقت حضرت والا کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور اکثر حضرت مولانا امیر علی شاہ صاحب شہیدرحمۃ اللہ علیہ کا یہ مصرعہ جوش میں روکر پڑھا کرتے تھے ؎