معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
’’یعنی یہ حضرات (اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ایسے مخلص لوگ ہیں کہ بعض لوگوں نے (یعنی عبدالقیس والوں نے) ان سے آکر کہا کہ ان لوگوں (یعنی اہلِ مکّہ) نے تمہارے مقابلے کے لیے بڑا سامان جمع کیا ہے، سو تم کو اندیشہ کرنا چاہیے تو اس خبر نے ان کے جوشِ ایمان کو اور زیادہ کردیا اور نہایت استقلال سے یہ کہہ کر بات کو ختم کردیا کہ ہم کو حق تعالیٰ سب مہمّات میں کافی ہیں اور وہی سب کام سپرد کرنے کے لیے بہتر کار ساز ہیں۔ یہی سپرد کرنا تو کّل ہے۔ پس یہ لوگ خدا کی نعمت اور اس کے فضل سے یعنی ثواب اور نفعِ تجارت سے بھرے ہوئے واپس آئے کہ ان کو کوئی ناگواری ذرا پیش نہیں آئی، اور وہ لوگ اس واقعے میں رضائےحق کے تابع رہے، اسی کی بدولت مجموع نعم سے سرفراز ہوئے، اور اللہ تعالیٰ بڑا فضل والا ہے۔‘‘ (تفسیر و ترجمہ از بیان القرآن) سبحان اللہ! کیا اپنے اللہ پر بھروسہ ہے، اور کیا اللہ کی محبت میں سرگرمی ہے کہ دشمنوں کی تیاری کی خبر سے ذرا بھی ہراساں نہ ہوئے، اور ہر صحابی بزبانِ حال یہ کہہ اٹھا کما قال العارف الرومی رحمہ اللہ تعالٰی فی ھذاالمقام حکایۃ عن العاشق الصادق ؎ تو مکن تہدیدم از کشتن کہ من تشنۂ زارم بخونِ خویشتن اے مخاطب! تو مجھے قتل ہونے سے مت خوف دلا، کیوں کہ میں تو خود ہی اپنے خون کا سخت پیاسا ہوں۔ بر سرِ مقطوع اگر صد خندق است پیشِ دردِ من مزاحِ مطلق است سربریدۂ عشقِ حق کے سامنے اگر سو خندق بھی ہیں تو درد ِعشق کے سامنے وہ سب محض مذاق کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دینِ من از عشق زندہ بودن است زندگی زیں جان و سرننگِ من است میرا دین عشق سے زندہ رہنا ہے، اس جان وسر سے جینا میرے لیے ننگ ہے۔