معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
باتیں سنارہے ہیں۔ایک اَن پڑھ رسول کی زبان سے میاں نے اپنی بولی بول کر تمام علمائے یہود و نصاریٰ کا علمی پندار اور سارے عرب کا زبان دانی کا ناز خاک میں ملادیا،اور معجزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ جب اس کے مقابلے سے ساری مخلوق عاجز ہو تو اس کو خالق کی طرف سے جان کر اپنے خالق پر ایمان لے آئے۔ اسی کو حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ صد ہزاراں دفترِ اشعار بود پیشِ حرفِ امّیش آں عار بود فصحائے عرب کے پاس فصیح او ر بلیغ اشعار کے لاکھوں دفتر موجود تھے، لیکن اس اُمّی رسول کے ایک حرف کے سامنے تمام دفتر کے دفتر، اشعار کے ذخیرے شرمندہ ہوکر رہ گئے۔ انبیاء علیہم السّلام کے معجزات کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے خالق اور پروردگارِ عالم ہونے کا یقین کرنا عقلاً ضروری ہے۔یعنی جب پیغمبروں کے معجزوں کے مقابلے سے تمام مخلوقات انفراداً اور اجتماعاً عاجز ہیں تو عقل یہ کہتی ہے کہ ضرور کوئی ایسی ذات ہے جو ان مخلوقات پر غالب اور قادر اور حکمران ہے،اور یہ رسول صورت میں بشر ہے مگر عام انسانوں سے ممتاز ہے۔ یہ مثلیت ایسی ہے جیسے کہ ایک گلاس سڑی مٹی کا بنا ہوا اور ایک گلاس چاندی کا بنا ہوا اور اسی سانچے کا ایک گلاس تمام انمول جواہرات کو گلا کر ڈھال دیا گیا ہو تو وہ سڑی مٹی سے بنا ہواگلاس اگر یہ کہے کہ یہ جواہرات سے ڈھلا ہوا گلاس بھی ہماری طرح ایک گلاس ہے تو انتہائی بے وقوفی کی بات ہوگی۔سڑی مٹی والا گلاس ذرا اپنے دام بازار میں لگوالے، اور پھر اس انمول جواہرات والے گلاس کے دام لگوالے، اُس کو تو دو پیسے دام ملیں گے اور اس گلاس کی قیمت سلطانِ وقت بھی نہیں دے سکتا ؎ گر بصورت آدمی انساں بُدے احمد و بو جہل ہم یکساں بُدے پس عام انسانوں میں اور رسول میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ نبی کا خمیر نورانی ہوتا ہے۔ حق تعالیٰ اپنے خاص انوار کو بشریت کے سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ