معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
حضرت والا کے قلب میں حضرت شیخ حکیم الامّت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی محبت اور عقیدت کا بیج جم گیا اور ارادہ فرمالیا کہ بعد فراغتِ تعلیم حضرت حکیم الامّت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ہی سے بیعت ہوں گا۔ حضرتِ والا کو چوں کہ معقولات کا شوق زیادہ تھا اور اس وقت مدرسہ عالیہ رام پور منطق اور فلسفے کا مشہور اور مخصوص مرکز تھا،اس لیے معقولات کی تکمیل کے لیے رام پور تشریف لے گئے، وہاں مولانا فضلِ حق صاحب رحمۃ اللہ علیہ منطق اور فلسفے کے ایسے بہترین استاد موجود تھے جن کی خدمت میں بخارا، ترک، غزنی، ہرات، کابل، قندھار، سمر قند وغیرہ کے طلباء بھی مولانا کا شہرہ سن کر آتے تھے اور ان میں اکثر تمام درسیات سے فارغ ہوکر محض تکمیلِ معقولات کی غرض سے شریکِ درس ہوتے تھے۔ مولانا فضل حق صاحب رحمۃ اللہ علیہ،مولانا عبدالحق خیر آبادی صاحب اورمولانا لطف اللہ صاحب علی گڑھی کے خاص تلامذہ میں سے تھے۔ حضرتِ والا تکمیلِ معقولات کے زمانے میں نیچے کے طلباء کو ’’ہدایہ‘‘، ’’میر زاہد‘‘، ’’ملا حسن‘‘ وغیرہ بھی پڑھاتے تھے۔ اسی مدرسہ عالیہ میں مولانا قاری علی حسین خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ حضرت قاری عبدالرحمٰن پانی پتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردِ رشید موجود تھے، جن سے حضرتِ والا نے ’’مسلم شریف‘‘اور کچھ فن تجوید کی تحصیل فرمائی۔ چوں کہ قاری عبدالرحمٰن پانی پتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ حضرت شاہ اسحاق صاحب محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے اس لیے حضرت والا اور حضرت شاہ اسحاق صاحب محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان صرف دو واسطے ہیں۔ مدرسہ عالیہ سے درسِ نظامی کی سند حاصل کرنے کے بعد حضرتِ والا رحمۃ اللہ علیہ حدیث پڑھنے کے لیے مولانا ماجد علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں گلاؤٹی تشریف لے گئے۔ مولانا ماجد علی صاحب جون پوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے زبردست معقولی تھے اور مولانا عبدالحق صاحب خیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا احمد حسین صاحب کانپوری رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے اور حدیث میں حضرت مولانا محدث گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے اور مولانا محمد یحییٰ صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ دو سال میں دورۂ حدیث کی تکمیل کی تھی اور حضرت