معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
مولانا فرماتے ہیں کہ قرآن اللہ کا نور ہے،اور عجیب مثال سے مولانا توضیح فرماتے ہیں کہ جس طرح آفتاب کا نور سارے عالم میں روشنی پہنچاتا ہےلیکن آفتاب کا یہ نور آفتاب کی ٹکیہ سے جُدا نہیں ہے اسی طرح قرآن حق تعالیٰ کا نور ہے اور ہر طالبِ نور پر اپنا فیض پہنچارہا ہے اور اللہ تعالیٰ سے جُدا بھی نہیں۔ حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شعر میں اس مثال سے بہت باریک اور نازک مسئلہ قرآن کے غیر مخلوق ہونے کا حل فرمادیا۔ قرآن نازل ہونے سے پہلے حق تعالیٰ شانہٗ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات چالیس برس تک اہلِ عرب کو دکھائی کہ یہ میرا رسول ہے، اے اہلِ عرب! تم لوگ ظہورِ نبوت سے پہلے میرے رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن دیکھو کہ ایسا بچہ روئے زمین پرکبھی نہیں پیدا ہوا، اور اے اہلِ عرب! میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی بھی دیکھ لو کہ ایسا جوان روئے زمین پر نہ پیدا ہوا ہے نہ پیدا ہوگا۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دو دن دیکھ کر فیصلہ مت کرو، چالیس برس تک ہم تم کو اپنا رسول دکھائیں گے، یہاں تک کہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور امانت کا مکّہ کی ہر ہر گلی میں چرچا ہونے لگے کہ ھٰذَا صَدُوْقٌ اَمِیْنٌ یہ شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بڑے سچے اور امین ہیں۔ فَعُوْلٌ اور فَعِیْلٌ دونوں صیغے مبالغے کے لیے آتے ہیں،یعنی بہت بڑے سچے اور بہت بڑے امانت دار۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون سچا ہوسکتا ہے؟ مگر اس سے اور نبیوں کی صداقت اور امانت کی تنقیص مراد نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کی صداقت کے افراد کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ اتنا وسیع ہے کہ اس کا احاطہ نہیں ہوسکتا۔کیوں کہ آپ تمام عالم کے انسانوں اور جنّوں کے لیے رسول ہیں اور پچھلے انبیاء علیہم السّلام کا حلقہ محدود تھا۔ اے عرب کے بچو! تم بھی میرے رسول کو دیکھو، تاکہ کل جب تم ادھیڑ عمر میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) سے ظہورِ نبوّت دیکھو تو جھٹلانہ سکو۔اور اے عرب کے جوانو! تم بھی میرے رسول کو دیکھو، تاکہ کل جب بوڑھے ہوکر اعلانِ نبوّت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) سے سنو تو انکار کی تمہیں کوئی گنجایش نہ رہے۔