معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
معمول بھی ہو، ایک ہی شے موقوف ہو اور وہی موقوف علیہ بھی ہو، ایک ہی شے مؤثر بھی ہو اور وہی متأثر بھی ہو، ایک ہی شے مخلوق بھی ہو اور وہی اپنی ذات کے لیے خالق بھی ہو، یہ عقلاً محال ہے۔کیوں کہ اس صورت میں شے کا اپنی ذات پر مقدّم ہونا لازم آتا ہے اور تَقَدُّمُ الشّیِٔ عَلٰی نَفْسِہٖ محالِ عقلی ہے۔ اب جب بات یہ ثابت ہوگئی کہ کوئی مخلوق شے اپنی ذات کے لیے خالق نہیں ہوسکتی۔ تو اب دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ انسان کی پیدایش میں سب سے زیادہ اسباب ِقریبہ کیا ہیں، زیادہ سے زیادہ منکرین کہہ سکتے ہیں کہ ماں باپ ہمارے خالق ہیں،کیوں کہ ہماری پیدایش میں ان کو بڑا دخل ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خالق کو اپنی مخلوق کا پورا پورا علم ہونا ضروری ہے۔ مخلوق کے ہر ایک ذرّے کا اتصال اور انفصال خالق کے احاطۂ قدرت اور علم سے خارج نہ ہونا چاہیے۔ اب ماں باپ کے متعلق غور کرنا چاہیے کہ جس وقت بچہ ماں کے شکم میں نشوو نما پاتا ہے اس نو مہینے کی تربیت کا علم ماں باپ کو ہے یا نہیں؟ کیا ماں باپ کو اس امر کی خبر ہے کہ ماں کے شکم میں منی کے اندر کیا کیا بخیہ گری ہورہی ہے؟ بچے کا رنگ کیا ہے اور وہ بچہ ہے یا بچی ہے؟ اس کا نقشہ کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ جب تک بچہ ماں کے شکم میں رہتا ہے ماں باپ اس بچے کی تخلیق سے بالکل بے خبر رہتے ہیں، پس ماں باپ کے لیے جب اس مخلوق سے بے خبری اور لاعلمی ثابت ہوگئی تو ان کا خالق نہ ہونا بھی ثابت ہوگیا، کیوں کہ خالق کے لیے اپنی مخلوق سے بے علمی اور بے خبری عقلاً محال ہے، حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اَلَا یَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَ ؕ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ ﴿٪۱۴﴾؎ بھلا وہی ذات نہ جانے گی جس نے پیدا کیا،اور وہ بہت باریک بیں اور پورے طور پر اپنی مخلوق سے باخبر ہے۔ اور ماں باپ تو بے چارے خالق ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرتے ہیں،یہ تو خود ہی اپنی ------------------------------