معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ایک کھاری چشمہ بھی موجود نہ تھا۔ یہی حال اُن مادی ترقیات کا ہے جن کا تمام تر تعلق صرف جسمانی اعضا سے ہے، رُوح سے نہیں ہے۔ آنکھ، ناک، کان، زبان سے دیکھنے، سونگھنے، سننے اور چکھنے کا لطف حاصل کررہے ہیں اور روح کی ترقی سے بے فکر ہیں۔ پس موت کا لشکر جس وقت آنکھ، ناک، کان، زبان وغیرہ کی نہروں کو کاٹ دے گا، یعنی احساسِ لذت کے یہ سب دروازے بند ہوجائیں گے تو اس وقت اس شخص کو سخت اضطراب اور ندامت پیدا ہوگی کہ اب کیا ہوگا ، ساری عمر تو مادّی ترقی میں گنوائی اور روح کے لیے کوئی سرمایہ نہ جمع کیا، جن اعضاکے ذریعے دنیا کی لذتوں کے احساس سے ہم مسرور رہتے تھے، آج سارے کے سارے معطل اور بے حِس ہوگئے۔ پس حسرت کرے گا اور نادم ہوگا کہ کاش! اپنے وطن میں آج کوئی سرمایہ ہوتا تو کام آتا۔ قلعے کے اندر ایک کھاری چشمہ بھی کھود لیا ہوتا تو وہ کام دیتا اور ہلاکت و تباہی سے بچ رہتے۔ جو عاقل آدمی ہوتا ہے وہ پہلے ہی سے اپنے انجام پر نظر رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ دنیا اور دنیا کی تمام راحتیں ایک دن ختم ہونے والی ہیں، اس لیے بقدرِ ضرورت دنیا سے کام لیتا ہے اور یہ عاقل مثل اس مسافر کے ہے جو دانہ گھاس کھلاکر اپنے گھوڑے سے کام لیتا ہے، یعنی جسم کو ایک سواری سمجھ کر اس سے سفر طے کرتا ہے۔ چناں چہ اپنے اعضا سے وہ اعمال کرتا ہے جو مرنے کے بعد آخرت کی زندگی کے لیے کام آنے والے ہیں، اور صرف مادی ترقی والا ہر وقت گھوڑے کی مالش اور اس کی زیب و زینت میں مشغول ہوکر سفر سے غافل رہتا ہے، بالآخر موت کے وقت یہ سواری بھی چھین لی گئی، کیوں کہ جسم کی یہ سواری چند ر وزہ امانتِ خداوندی تھی۔ پس مقصود سے محروم اور گھاٹے میں رہا، کیوں کہ سواری کو مقصود سمجھ بیٹھا تھا، حالاں کہ سواری ذریعۂ مقصود تھی، منزلِ مقصود تو رضائے الٰہی تھی جس سے یہ محروم رہا۔ اس وقت آنکھ کھل جاوے گی کہ اصلی ترقی کس کا نام ہے، لیکن اب اس تنزلی کا تدارک ممکن نہیں ہے۔ ’’اب پچھتائے کا ہُوَتْ ہے جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت‘‘