معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
کراچی میں حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے حکم سے ان ہی سولہ سالہ مسودات اور مجموعۂ علوم و معارف میں ترتیب دینے سے سب سے پہلی کتاب ’’ معیتِ الٰہیہ‘‘تیار ہوئی، پھر تین ماہ مسلسل ’’معرفتِ الٰہیہ‘‘ کی ترتیب ہوئی، احقر ہر روز اوّلاً چار رکعت نماز نفل ادا کرتا،پھرسجدے میں رو کر دعا کرتا کہ اے اللہ! حضرت شاہ پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے علوم کو باحسن طریق احقر کے قلم سے جمع فرمادیجیے۔ بفضلہٖ تعالیٰ اوسطاً پانچ صفحات یومیہ ہوجاتے۔ یہ نام ’’معرفتِ الٰہیہ‘‘ بھی احقر ہی کا تحریر کردہ ہے، جس کو حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے بہت پسند فرمایا۔ ’’معرفتِ الٰہیہ‘‘ کی تحریر کے وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ میرے قلب میں الفاظ اور ترتیب القا فرمارہے ہیں اور احقر لکھتا جارہا ہے۔ اکثر و بیشتر مضامین کے تأثر سے احقر پر لکھتے لکھتے گریہ طاری ہوجاتا، پھر دل کو سنبھال کر قلم اُٹھاتا، اس وقت احقر کو اپنے وجود کی مطلق خبر نہ رہتی، بس یہی معلوم ہوتا کہ حضرت مرشدی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی روحِ مبارک میری روح پر خاص طور پر متوجہ ہے ؎ آمدی درمن مرا بُردی تمام اے تو شیر حق مرا خور دی تمام ’’معرفتِ الٰہیہ‘‘ کے جب تین سو صفحات ہوچکے اور احقر کا ارادہ ہوا کہ اب یہ کتاب پریس کے حوالے کردوں، اسی شب میں خواب میں دیکھا کہ حضرت والا پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میری کتاب ’’معرفتِ الٰہیہ‘‘ چار سو صفحات کی ہے۔ احقر نے اس اشارۂ غیبی کے بعد اور مضامین مسودات سے تلاش کرکے لکھنا شروع کیے، حتیٰ کہ بفضلہٖ تعالیٰ یہ کتاب مکمل ہوگئی۔’’ معرفتِ الٰہیہ‘‘ کے بعد اسی طرح ’’صراطِ مستقیم‘‘ اس کے بعد ’’ ملفوظات‘‘ اور ’’براہین قاطعہ‘‘ کی ترتیب ہوئی۔ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب نے کتاب’’معرفتِ الٰہیہ‘‘ کو جب دیکھا تو ارشاد فرمایا کہ سولہ سال کے متفرق مضامین(علوم و معارف) کا اس طرح مربوط تحریر ہوجانایہ حضرت اقدس پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت ہے۔ حضرت اقدس پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جب