معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
دوسرے شعر میں مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’بادہ مجھ سے مست ہے نہ کہ میں اس سے مست ہوں، قالب کا وجود میرے سبب سے ہے نہ کہ میرا وجود اس کے سبب سے۔‘‘مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے آپ کو صرف مرتبۂ روح میں لاکر قطع نظر اس جسدِ عنصری کے یہ اشعار کہے ہیں اور یہ امر ظاہر ہے کہ اگر روح کا علاقہ اس جسدِ خاکی سے منقطع ہوجاوے توپھر شراب کا نشہ اسی وقت کا فور ہوجاوے اور روح میں عشقِ حق سے جو مستی ہے اس کو ہر وقت تازگی ہےکبھی زوال نہیں، خواہ جسدِ عنصری کا تعلق باقی رہے یا منقطع ہوجاوے، اسی کو فرماتے ہیں ؎ جامہ پوشاں را نظر برگا ذر است رُوحِ عُریاں را تجلّی زیور است جامہ پوشوں کی نظر دھوبی پر رہتی ہے اور روحِ عریاں کا زیور تجلّیٔ حق ہے ؎ رنگِ صدق و رنگِ تقویٰ و یقیں تا ابد باقی بود بر عابدیں صدق اور تقویٰ اور یقین کا رنگ عابدین کی روحوں پر تا ابد باقی رہتا ہے ؎ زیں سبب ہنگا مہا شد کل ہدر باشدایں ہنگامہ ہر دم گر م تر اسی سبب سے جسمِ خاکی کے ہنگامےیعنی دنیا کے علائق اور لذّاتِ فانیہ سب ایک دن فنا ہوجائیں گے اور روح کے اندر جو تعلق مع اللہ کی مستی ہوتی ہے اس کاہنگامہ ہر دم گرم رہتا ہے ؎ خود قوی تر می شود خمرے کہن خاصہ آں خمرے کہ باشد مِن لَّدُنْ شراب میں جس قدر کہنگی بڑھتی جاتی ہے اس کا نشہ تیز ہوجاتا ہے، خصوصاً وہ شراب جو کہ اس ساقیٔ ازل نے پلائی ہو ؎