معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
منتقل ہوتی آرہی تھی رحمِ ماں میں سپرد کرنے کے لیے تھا، باپ کو صرف اتنا ہی دخل ہوا کہ جس نطفے میں ہمارے ذرّاتِ آفرینش کو حق تعالیٰ نے غذاؤں کے ذریعے اقصائے عالم سے سمیٹ کر جمع فرمادیا تھا اس امانت کو ماں کے شکم میں پہنچادے اور ماں باپ میں ایسی خواہشات رکھ دیں کہ ان کو اس امانت کے سپرد کرنے میں کچھ مجاہدہ نہ کرنا پڑا، بلکہ ایک خاص لطف اور لذّت کے ساتھ ان کی رحمت بے پایاں ان امانات کو اصلابِ آباء(باپوں کی پشتوں)اور بطونِ امّہات(ماؤں کے شکموں )سے نسلاً بعد نسلٍ منتقل کرتی رہتی ہے۔ اب ماں کے شکم میں جب پہنچے تو اس وقت ہم کیا تھے؟ ایک نجس پانی، جس کو حق تعالیٰ شانہٗ نے ماء مہین سے تعبیر فرمایا ہے (ماء مہین کا ترجمہ ذلیل پانی ہے)۔ یہی ہماری کل پونجی اور ہماری بنیاد تھی، پھر اس محسنِ حقیقی نے اس ذلیل قطرۂ مَنی کو آنکھ، کان، ناک، ہاتھ، پاؤں، زبان بخشے اور ان کے اندر تمام خزانے بینائی، شنوائی وغیرہ کے رکھ دیے اور ماں باپ کو اس میں کچھ بھی تو دخل نہیں ہے ، ماں باپ کو تو خبر بھی نہیں ہے کہ اس نطفے کے اندر کیا بخیہ گری ہورہی تھی، بہت بڑی عبرت کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لیے حجّت تمام فرمادی، کیوں کہ ماں اپنے پیٹ میں بچےکو لیے ہوئے چلتی پھرتی ہے۔ لیکن اس کو خبر نہیں کہ پیٹ کے اندر کیا ہورہا ہے، اس خدائی کارخانےمیں ماں باپ کا ہاتھ لگنے نہیں دیا، ورنہ بعض نادان ماں باپ ہی کو اپنا خالق سمجھ بیٹھتے۔ ماں باپ کو نو مہینے تک بالکل بے خبر رکھتے ہیں، تاکہ ان کی اس بے خبری سے ہمارے بندے عبرت حاصل کرلیں کہ ماں باپ اگر خالق ہوتے تو ان کو علم بھی ہماری خلقت کا ہوتا، خالق اپنی مخلوق ہی سے جاہل اور بے خبر ہو، یہ عقلاً محال ہے۔ پس اپنے مشاہدے کے مطابق یقین کرلیں کہ ہم کو ماں باپ نے پیدا نہیں کیا ہے، ماں کے شکم میں کوئی اور ہاتھ تھا، وہی ہمارا اللہ ہے، صرف ان کا ہاتھ نہیں دکھائی دیا، باقی اس ہاتھ کی بخیہ گری جو اس قطرۂ مَنی پر ہوئی ہےاس کو ہم نو مہینے کے بعد عالَمِ وجود میں مشاہدہ کرلیتے ہیں۔ کیا کوئی دعویٰ کرسکتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں میرا ہاتھ تھا؟ نہ ماں دعویٰ کرسکتی ہے، نہ باپ دعویٰ کرسکتا ہے،تو دوسرا کون دعویٰ کرسکتا ہے؟اسی کو حق تعالیٰ ارشاد