معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
الۡکُفَّارِمیں بیان فرمائی گئی اور دوسری شان رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ میں بیان فرمائی گئی ہے، جس طرح یہ اللہ کی خوشنودی کے لیے اللہ کے دشمنوں پر سخت تھے اسی طرح اللہ کی خوشنودی کے لیے اللہ کے دوستوں پر نرم اور رحم دل تھے، جس طرح اپنے ظاہری اور باطنی اعضاء کو پابندِ محبت کردیا تھایعنی اللہ تعالیٰ کی محبّت میں لگادیا تھا اسی طرح اپنے جذبات اور کیفیات کو اللہ تعالیٰ کی بندگی سکھادی تھی، اب عداوت اور بغض اگر کسی سے ہے تو محض اللہ کے لیے ہے اَلْحُبُّ لِلہِ وَالْبُغْضُ لِلہِ(کسی سے محبت ہو تو خاص اللہ کے لیے ہو اور کسی سے بغض ہو تو اللہ کے لیے ہو)کے سچے مصداق بن گئے تھے۔یہ محبّت کی دوسری ذاتی صفت ہے کہ محبوب کے دوستوں کے ساتھ محبّت ہوجائے۔ اللہ کی خوشنودی کے لیے ایمان والوں کے ساتھ ایسی اخوّت اور رحمت کا تعلق تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی تعریف میں ارشاد فرماتے ہیں: یُحِبُّوۡنَ مَنۡ ہَاجَرَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَا یَجِدُوۡنَ فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ حَاجَۃً مِّمَّاۤ اُوۡتُوۡا وَ یُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَ لَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ ؕ۟؎ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ (ان کی رحمت و محبت کا یہ عالم ہے کہ) جو ان کے پاس ہجرت کرکے آتا ہے اس سے یہ لوگ محبت کرتے ہیں، اور مہاجرین کو جو کچھ مالِ غنیمت وغیرہ سے ملتا ہے اس سے یہ انصار بوجہ محبّت کے اپنے دلوں میں کوئی رشک نہیں پاتے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر محبّت کرتے ہیں کہ اطعام وغیرہ میں ان کو مقدّم رکھتے ہیں، اگرچہ اُن پر فاقہ ہی ہو، یعنی بسَا اوقات فاقے سے بیٹھے رہتے ہیں اور مہاجرین کو کھلادیتے ہیں۔(بیان القرآن) حدیث شریف میں ہے کہ ایک صحابی کے یہاں ایک صحابی مہمان ہوئے، کھانا کم تھا، جو کچھ تھا حاضر کردیا، اور چراغ کو گُل کردیا، خود بھی ساتھ بیٹھ گئے، اور یوں ہی مُنہ کو کھانے والوں کی طرح حرکت دیتے رہے، تاکہ مہمان کو یہ علم نہ ہو کہ میزبان ------------------------------