معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
ہے، دنیا میں اس کے پھل پھول پیدا ہوں گے۔ اسی کو ہمارے خواجہ صاحب مجذوب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ دل ازل سے ہے کوئی آج کا شیدائی ہے تھی جو اک چوٹ پُرانی وہ ابھر آئی ہے الحمد للہ! آیت مذکورۃ الصدر پر میری ایک الہامی تقریر ہے، اگر آج میرے مرشد حضرت تھانوی قدس سرہ العزیز بحیاتِ طیبہ تشریف فرما ہوتے تو اس تقریر کو سُن کر بہت خوش ہوتے اور یہ سب ان ہی کی غلامی کا صدقہ ہے، واللہ! میں کچھ نہیں ہوں، جو لوگ مجھ سے اعتقاد ظاہر کرتے ہیں تو مجھے اپنے اوپر ہنسی معلوم ہوتی ہے کہ اس خالی خولی بندے سے کیوں ایسی عقیدت رکھتے ہیں۔ درحقیقت اچھے اچھے بندے جب اٹھ جاتے ہیں تو بقولِ شخصے ’’ گندم اگر بہم نہ رسد بھس غنیمت است‘‘یعنی جب گیہوں نہیں ملتا ہے تو لوگ گیہوں کی بُھوسی ہی کو غنیمت سمجھنے لگتے ہیں، وہی حال میرا ہے۔ حضرت حاجی صاحب مہاجر مکّی دادا پیر قدس سرّہ کا ارشاد ہے ؎ جو تھے نوری و ہ گئے افلاک پر مثل تلچھٹ رہ گیا میں خاک پر حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا دوسرا ارشاد ہے ؎ بلبلوں نے گھر کیا گلشن میں جا بُوم ویرانے میں ٹکراتا رہا حضرت مرشدی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نامِ پاک کی طرف جو ایک نام کا انتساب ہے آج اسی کا یہ بےچارے لحاظ کرتے ہیں۔ میں سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن جب حق تعالیٰ مجھ سے دریافت فرمائیں گے کہ میں نے تجھ کو ایسا پِیر دیا تھا جو اپنے وقت کا غوثِ زمان اور مجددِ زماں تھا اور روئے زمین پر اجلۂ آیاتِ کبریٰ میں سے ایک ممتاز فرد تھا، ہائے جن کی شان میں رمزیؔ اٹاوی نے خوب لکھا ہے ؎