معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
تاکہ تم کو اپنے اندر لے کر پھر تم کو اپنی رُوح کے افعال سے نکال لیں، ورنہ اگر وہ جسم سے بھی تمہارے ساتھ نہ ہوتے تو تمہاری خلاصی کی کوئی صورت نہ ہوتی، یا اگر عارفین میں رُوح کا مرتبہ چاہِ دنیا سے خارج نہ ہوتا تب بھی تمہارے اخراج کے لیے وہ کافی نہ تھے، جیسے فرض کرو ڈول سمیت کنویں کے اندر آگرے وہ دوسرے کو نہیں نکال سکتا۔ لیکن واضح رہے کہ یہ ڈول دوسروں کو اسی وقت تک نکال سکتا ہے جب تک کہ اس ڈول کا تعلق رسی کے ذریعے کنویں کے اوپر نکالنے والے کے ہاتھ سے قائم ہو، اسی طرح عارف کے جسم کی صحبت و خدمت و تعلق اسی وقت تک مفید ہے جب تک اس جسم کا علاقہ رُوح سے قائم ہے، ورنہ بعد انتقال ہوجانے کے جب روح کا تعلقجسمِ عارف سے الگ ہوگیا تو اب جسمِ عارف سے طالبین کی تربیت اور تعلیم نہیں ہوسکتی، جیسا کہ عابدینِ قبر(قبرکی پرستش کرنے والے)نادانیوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ پھر مولانا فرماتے ہیں کہ عارفین کے اجسام میں اور عوام کے اجسام میں فرقِ عظیم ہے۔ عوام کے اجسام چاہِ دنیا میں لذاتِ دنیویہ کے طالب ہیں اور عارفین کے اجسام لوگوں کو اس چاہ سے نکالنے میں مشغول ہیں۔ عوام کے اجسام کا تمام تر تعلق عالم عناصر سے ہے، اور اس عارف کے جسم کا معتدبہ تعلق حق تعالیٰ سے ہے کَمَا وَرَدَ فی الْحَدِیْثِ: کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ، وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یَبْصُرُ بِہٖ؎ اورحقیقت یہ ہے کہ عارفین کے مراتبِ قرب اور اُن کی جلالتِ شان کے لائق دنیا میں کوئی مثال نہیں ہے، یہ تمام تمثیلاتِ مذکورہ محض توضیح کی غرض سے لائی گئی ہیں، ان مثالوں سے مماثلت من کل الوجہ نہ سمجھنا چاہیے اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، خصوصاً رُوحِ عارف کہ اصل عارف ہے وہ خود غیر محسوس ہے، خصوصاً جب اس میں نسبت مع اللہ کا لحاظ کیا جاوے، پس غیر اشرف میں اشرف کا مماثل اور محسوسات میں غیر محسوس کا مماثل اور متعلقاتِ بماسوی اللہ میں متعلق مع اللہ کا مماثل کہاں پایا جاسکتا ہے۔ (مستفاد من کلید مثنوی) ------------------------------