معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
کی تنخواہ تو کچھ نہیں ہوتی، مگر بڑے بڑے تنخواہ دار حتیٰ کہ گورنر اور وزراء تک مقرّب سے کانپتے ہیں اور اپنے اہم امور میں مقرّبِ بادشاہ سے سفارش کراتے ہیں۔ درود شریف کے جس قدر فضائل ہیں وہ سب اجرت کے تحت وارد ہیں اورقرآن شریف کی تلاوت کا صرف ایک ثمرہ انعامِ قُرب تمام فضائل پر فوقیت رکھتا ہے۔ (انتہی) قربت اور اجرت کا فرق فرعون مردود بھی سمجھتا تھا، جب اس نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام اور حضرت ہارون علیہ السّلام کے مقابلے کے لیے اپنے بڑے بڑے جادوگروں کو بلایا تو انہوں نے فرعون سے یہ کہا اَئِنَّ لَنَا لَاَجۡرًا اِنۡ کُنَّا نَحۡنُ الۡغٰلِبِیۡنَ اگر ہم لوگ حضرت موسیٰ علیہ السّلام اور حضرت ہارون علیہ السّلام کے مقابلے میں غالب آگئے تو کیا ہم کو کچھ اجر ملے گا؟فرعون نے جواب دیا: نَعَمْ ’’ہاں‘‘ اِنَّکُمۡ اِذًا لَّمِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ بےشک تم لوگ اس وقت میرے مقرّب لوگوں میں سے ہوجاؤ گے، چوں کہ سُلطان کا مقرّب ہونا بہت بڑا انعام ہے، اس وجہ سے فرعون مردود نے جادوگروں کو انعامِ عظیم کا لالچ دلایا، کوئی خزانہ یا سلطنت کا کوئی حصہ لکھنے کا وعدہ نہیں کیا، کیوں کہ انعامِ قرب سے یہ گھٹیا درجے کی چیزیں تھیں، اور اس وقت فرعون کی آبرو اور جان اور سلطنت سب خطرے میں تھیں، اس لیے اس کے ذہن میں سب سے بڑا انعام جو تھا جھٹ اس کا وعدہ کرلیا۔ اگر حضرت رحمۃ اللہ علیہ بحیاتِ طیّبہ تشریف فرما ہوتے اور اجرت و قربت کا جو فرق حضرتِ والا رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے، اگر اسی مضمون کے ساتھ میں یہ آیت پڑھ دیتا : قَالُوۡا لِفِرۡعَوۡنَ اَئِنَّ لَنَا لَاَجۡرًا اِنۡ کُنَّا نَحۡنُ الۡغٰلِبِیۡنَ ﴿۴۱﴾ قَالَ نَعَمۡ وَاِنَّکُمۡ اِذًا لَّمِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ ﴿۴۲﴾؎ تو حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ بہت ہی خوش ہوتے، کیوں کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے اس مضمون کی اس آیتِ کریمہ سے تائید ہوجاتی ہے۔ ------------------------------