معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
شد صفیرِ بازِ جاں در مرجِ دیں نعرہ ہائے لَااُحِبُّ الْاٰفِلِیْن بازِ رُوح کی آواز شکار گاہِ دین میںلَا اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ؎کے نعرے ہیں،یعنی یہ جان سپار و جانبازِ حق بجز رضائے الٰہی کے کسی چیز کو محبوب نہیں رکھتا ہے، یہ اپنے صحیح مقصدِ حیات کا رازداں ہوتا ہے۔ وہ مقصدِ حیات کیا ہے ؎ بہر ایں آورد مایزدان برون مَاخَلَقْتُ الْاِنْسَ اِلَّا یَعْبُدُوْنَ مولانا فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ عالمِ ارواح سے عالمِ ناسوت میں اس لیے ہمیں باہر لائے ہیں کہ ہم لوگ ان کی اطاعت و عبادت کریں ؎ بسودائے جاناں زجاں مشتغل بذکرِ حبیب از جہاں مشتغل بیادِ حق از خلق بگر یختۂ چناں مست ساقی کہ می ریختۂ حضرت سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مقربین بندے محبوبِ حقیقی کے عشق میں اپنی جان سے بھی بے پروا ہیں اور محبوبِ حقیقی کی یاد میں سارے جہاں سے بے خبر ہیں،یادِ حق میں خلق سے بھاگے ہوئے ہیں اور اس منعمِ حقیقی پرایسے متوالے ہوگئے ہیں کہ نعمتوں کی طرف سے التفات جاتا رہا، صرف ذاتِ منعم پر ٹکٹکی باندھے ہوئے ہیں۔یعنی اُن کی وہ محبت جو پہلے بواسطۂ امید و حرصِ مے تھی اب وفورِ طلب و شوق سے یہ حجابِ واسطہ بھی اٹھ گیا، اور محبت کامل ہوگئی، اب غلبۂ محبت میں بجز ذاتِ ساقی کے کچھ مطلوب نہ رہا اور قرب کے اس رفیع مقام پر بواسطۂ مے میں بوئے شرک محسوس کرکے جامِ مے کو زمین پر لڑھکادیا۔ ------------------------------