معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
جس نے ہمارے کانوں کو سننے والا بنایا؟ اسی طرح زبان کے بارے میں سوچتا ہے کہ اگر ہم گونگے ہوتے تو کیا مصیبت ہوتی؟ مافی الضمیر کو ہاتھوں کے اشاروں سے سمجھانے میں کیسی پریشانی اٹھانی پڑتی؟ وہ کون محسن ذات ہے جس نے بدون معاوضے اور سوال کے ہماری زبان کو گویا فرمادیا؟ اور وہ کون ذات ہے جس نے ہمارے ایسے جوڑ دار ہاتھ پاؤں بنادیے کہ جن سے ہم مختلف کاموں کے وقتوں میں مختلف طور سے کام لیتے ہیں؟ علیٰ ہٰذاالقیاس اپنے اندر ہر نعمت کے متعلق اس قسم کے سوالات کا پیدا ہونا ایک فطری اور عقلی تقاضا ہے۔ پھر جس طرح انسان کو اپنے جسم کے اندر کی تمام نعمتوں میں غور کرکے اپنے محسن کی تلاش کا داعیہ پیدا ہوتا ہے، اسی طرح جب یہ آسمان کی طرف نگاہ کرتا ہے تو فطرتِ بشریہ کا اقتضاءیہ سوال پیدا کرتا ہے کہ یہ بے ستون کا ایسا خوبصورت آسمان کس محسن نے ہمارے لیے پیدا فرمایا ہے؟ پھر اس کے اندر سورج، چاند اور بے شمار ستاروں کو کس نے جڑ دیا ہے؟ اسی طرح انسان جب نیچے نگاہ کرتا ہے تو باقتضائے فطرت اس کے اندر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون محسن ذات ہے جس نے ہمارے لیے زمین کے اتنے بے شمار ذرّات کو اکٹھا کرکے ہمارے لیے فرش بنادیا ہے؟ اسی طرح بہت سےمناظرِ فطرت، مثلاً صحرائے لق و دق، کوہ ہائے بلند، بحر ناپیداکنار وغیرہ کو دیکھ کرسوچتا ہے کہ وہ کون محسن ذات ہے جس نے ہمارے لیے ایسے ایسے اونچے پہاڑوں کو اور ناپید اکنار سمندروں کو مسخّر فرمادیا ہے؟ پانی کے اتنے قطرات سمندر میں کس نے جمع کردیے ہیں؟ خلاصہ یہ ہے کہ اپنے محسن کی پہچان کا تقاضا پیدا ہونا انسان کا فطری اقتضاء ہے اور یہ اقتضائے بشریت اس قدر اہمیت اپنے اندر لیے ہوئے ہے کہ اس کی وجہ سے فقہاء میں باہمی اختلاف اس مسئلے میں ہوگیا ہے، یعنی ایک جماعت فقہاء کی یہ کہتی ہے کہ جس مقام پر کوئی نبی یا رسول نہیں پہنچا اور نہ اُن کے نائبین پہنچے وہاں کے لوگوں پر خدا کی پہچان فرض نہیں ہےاور فقہاء کی دوسری جماعت یہ کہتی ہے کہ نہیں! ان لوگوں پر بھی خدا کی معرفت فرض ہے،نفسِ توحید کے لیے انسان کی عقل کافی ہے، خدا کو پہچاننا اقتضائے بشریت ہے۔ البتہ ان لوگوں سے اُن فروعی احکام کا مطالبہ نہیں ہوگا جن کو خدا کا رسول خدا کی طرف سے بندوں تک پہنچاتا ہے۔ اس اقتضائے فطرت