معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
میں ہوں اور حشر تک اس در کی جبیں سائی ہے سرِ زاہد نہیں یہ سر سرِ سودائی ہے کبھی اپنے مرشد حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں یہ شعر پڑھتے سنا ؎ ناز ہے گل کو نزاکت پہ چمن میں اے ذوق تو نے دیکھے ہی نہیں ناز و نزاکت والے حضرت والا نے اپنی پوری اٹھاسی سالہ زندگی میں دو شعر خود بھی کہے ہیں: پہلا شعر ؎ ہمیں نقشِ قدمِ اشرف علی ملحوظ رکھنا ہے جو کچھ فرماگئے ہیں وہ اسے محفوظ رکھنا ہے مصرعۂ اولیٰ میں نقشِ قدم کا لفظ عملی حیثیت کی حفاظت پر دلالت کرتا ہے اور مصرعۂثانیہ میں علمی حیثیت کی حفاظت کی تعلیم ہے۔ دوسرا شعر ایک خاص واقعے سے متعلق ہے۔ ایک بار حضرت والا نے خواب میں دیکھا کہ ایک دریا ہے اور اس میں ایک کشتی چل رہی ہے۔جس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور پیچھے کچھ فاصلے سے دوسری کشتی پر حضرت والا بیٹھے ہوئے ہیں، پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عبدالغنی کی کشتی کو میری کشتی سے ملادو۔ پھر اس حکم کے مطابق کچھ لوگوں نے حضرت والا کی کشتی کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کشتی سے ملادیا۔ حضرت والا نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ جس وقت میری کشتی جوڑی گئی تو وہ کھٹ کی آواز جو کشتی کے ملنے سے پیدا ہوئی تھی اب تک گویا میرے کانوں میں گونجتی ہے،یعنی اس کی لذت بھولا نہیں ہوں۔ اسی واقعے سے متاثر ہوکر ایک خاص کیفیت کے تحت حضرت والا نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ ایک شعر وارد ہوا ہے، جس کے اندر یہ انعامِ عظیم بھی آ گیا ہے ؎ مضطرب دل کی تسلی کے لیے حکم ہوتا ہے ملا دو ناؤ کو