معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
موحّد چہ برپائے ریزی زرش چہ فولاد ہندی نہد برسرش امید و ہراسش نباشد زکس ہمیں است بنیادِ توحید و بس توحید جس کے قلب میں راسخ ہوجاتی ہے تو اس کے پاؤں پر خواہ تو سونے کا ڈھیر رکھ دے یا اس کے سر پر ہندی تلوار رکھ دے لیکن وہ سونے کی طمع سے یا ہندی تلوار کے خوف سے توحید سے ہٹ نہیں سکتا۔ توحید کی قوّت کے فیض سے موحّد کو نہ کسی سے امید ہوتی ہے، نہ کسی سے ہراس ہوتا ہے اور اسی پر توحید کی بنیاد ہے۔ حق تعالیٰ کے ساتھ جب رابطہ قائم ہوجاتا ہے تو وہی گدڑی والا بزبا نِ حال یہ کہتا ہے ؎ رُخِ زرینِ من منگر کہ پائے آہنی دارم چہ می دانی کہ درباطن چہ شاہے ہمنشیں دارم اے شخص! میرے زرد چہرے کو مت دیکھ، کیوں کہ میں آہنی پیر رکھتا ہوں۔اے مخاطب! تجھ کو کیا معلوم کہ میں اپنے باطن میں کس شہنشاہِ حقیقی کو ہمنشین رکھتا ہوں۔ حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ رُوبہے کہ ہست او ر ا شیرپشت بشکند کلّہ پلنگا را بمشت جس لومڑی کو شیر کا سہارا نصیب ہوگیا تو وہ چیتے کا کلّہ ایک گھونسے سے پھاڑ دیتی ہے۔ پس یہی بندۂ ضعیف اور عاجز جب اپنے باطن میں حق تعالیٰ شانٗہ سے رابطہ قائم کرلیتا ہے تو اس کی ہمت اور اس کا حوصلہ عام انسانوں سے ممتاز ہوجاتا ہے۔ اسی روحانی قوت کے متعلق مولانا فرماتے ہیں کہ اہل اللہ بظاہر تو شکستہ حال ہوتے ہیں، لیکن ؎ ضعفِ قلب از تن بود در رُوح نَے ضعف در کشتی بود در نوح نَے