معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
کردی جاتی، لیکن توقف اس لیے ہے کہ مجھ کو اس کی آواز بھلی معلوم ہوتی ہے اور دعا میں اس کا اے اللہ اے اللہ کہنا اور اس کا یہ راز و نیاز اور یہ امر کہ وہ تملّق اور ماجرامیں ہر ہر طرح سے مجھ کو پُھسلاتا ہے، یہ سب مجھے اچھا معلوم ہوتا ہے۔ پھر مولانا اس کو ایک مثال سے سمجھاتے ہیں، فرماتے ہیں کہ طوطیوں اور بلبلوں کو پسندیدگی کی وجہ سے خوش آوازی کے سبب قفس میں بند کردیتے ہیں اور کوّے یا اُلّو کو قفس میں نہیں بند کرتے، کیوں کہ ان کی آواز کانوں کو تکلیف دیتی ہے۔ دنیا مؤمن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت کس اعتبار سے ہے؟ یہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اس لیے ہے کہ اس کی حاجات کم پوری ہوتی ہیں جس سے وہ تنگ رہتا ہے اور اصلی سبب نہیں جانتا، جس طرح طوطی اور بلبل کے لیے قفس تجویز کیا جاتا ہے اور وہ تنگ ہوتی ہے، اور کافروں کے لیے یہ دنیا جنت ہے، کیوں کہ ان کی اکثر حاجتیں پوری کردی جاتی ہیں۔ فائدہ:تاخیرِ اجابت کی علت یا حکمت کا اسی میں انحصار مقصود نہیں، بلکہ من جملہ دیگر اسباب کے ایک یہ بھی ہے،چوں کہ یہ مشہور نہ تھی اس لیے اس پر تنبیہ مناسب ہوئی اور حدیث:اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ؎ کی ایک توجیہ یہ بھی ہے۔ یہاں بھی اس میں انحصار نہیں، اور توجیہات بھی مشہور ہیں، مثلاً یہ کہ مؤمن کو جو نعمتیں جنت میں ملنے والی ہیں دنیا میں کیسی ہی خوش عیشی ہو مگر اس کے اعتبار سے قید خانہ ہے، وعلیٰ ہذا القیاس کافر کی عقوبت کے اعتبار سے دنیا کی مصیبت بھی جنت ہے۔ اور مثلاً یہ کہ مؤمن کا دنیا میں مثل قید خانے کے دل نہیں لگتا ہے اور کافر کا دنیا میں خوب جی لگتا ہے،وَبِھٰذَاالْاَخِیْرِیَشْھَدُذَوْقِیْ اور یہ آخری توجیہ میرے جی کو زیادہ لگتی ہے۔ (کلیدِ مثنوی، دفترِ ششم: ۴۲۹) دوسری جگہ عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب حق تعالیٰ کے ------------------------------