معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
لِّلۡمُتَّقِیۡنَ کو مقدم فرمایا،کہ اوّلاً قرآن سے حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ہدایت ہوگی، پھر اُن کے ذریعے سے تمام انسانوں کو ہدایت ہوگی۔چناں چہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ؎ میرے اصحاب مثل ستاروں کے ہیں ان میں سے جن کی بھی اقتدا کرو گے ہدایت پاجاؤ گے۔ دنیا کا یہ قاعدہ مسلّمہ ہے کہ جب کوئی اہم اور عظیم الشان کام کیا جاتا ہے تو اپنے مخصوص اور مخلص دوستوں کو بلالیتے ہیں اور اس اہم کام کے متعلق مشورہ کرتے ہیں کہ اس کام کو کس طرح پھیلایا جائے، پھر مشورے کے بعد جب طریقۂ کار طے پالیتا ہے توان مخلص دوستوں میں سے ہر ایک کو اس طریقۂ کار کی عملی مشق کرائی جاتی ہے، حتیٰ کہ جب ہر فرد خوب پختہ کار ہوجاتا ہے تو ان ہی پختہ کار دوستوں کے ہر فرد کو اس طریقۂ کار کا امام بناکر ہر طرف منتشر کردیا جاتا ہے، تاکہ یہ پختہ کار افراد اپنے اپنے حلقوں میں اس کام کو عام اور تام کریں۔ حق تعالیٰ شانہٗ نے دینِ اسلام کو سارے عالم میں پھیلانے کے لیے جب اپنے رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو علمِ اِلٰہی میں جو افراد اللہ تعالیٰ کے مخصوص اورمخلص دوست تھے ان کو اس دین کی نصرت اور تبلیغ کے لیے منتخب فرمایا۔ اس انتخاب کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے: ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ ۚۖۛ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡل یہ ان کےیعنی حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے اوصافِ مذکورہ،یعنی ابتغائے فضل ورضائے حق کے لیے شدّت علی الکفار، رحمت فیما بینھم، رکوع اور سجود اور ان کے چہروں کے انوار کا بیان توریت میں ہے اور انجیل میں ان کا یہ وصف ہے کہ جیسے کھیتی کہ اس نے اپنی سوئی نکالی، پھر اس نے اس کو قوی کیا، پھر وہ کھیتی اور موٹی ہوئی، پھر اپنے ------------------------------