معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
کیوں کہ نمرود کو توحید کی دعوت ہی سبب تھی اس آگ کا، پس سبب کو خوشی سے اختیار کرنا بمنزلہ مسبب کے بخوشی اختیار کرنے کے ہے۔ یا چوں اسماعیل صبَار مجید پیشِ عِشق و خنجرش حلقے کشید یا مثل اسماعیل علیہ السّلام کامل الصبر صاحب المجد کے کہ عشقِ حقیقی اور اس کے خنجر کے رو برو حلق رکھ دیا۔ نیکواں رفتند و سنتہا بماند و از لئیماں ظلم و لعنتہا بماند حق تعالیٰ کے پاک بندے چلے گئے لیکن ان کا طریقہ دوسروں کی ہدایت کے لیے باقی رہ گیا، اسی طرح ناپاک بندے چلے گئے لیکن ان کے مظالم اور ان پر خدا کی لعنتیں باقی رہ گئیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنی جانوں کو قربان کیا ہے انہوں نے بعد والوں کے لیے اپنے عمل کو سبق اور ہدایت کا ذریعہ چھوڑا ہے۔تعلیمِ فعلی کا اثر تعلیمِ قولی سے زیادہ قوی ہوتا ہے،اللہ والے ہر طرح سے تعلیم دیتے ہیں، کبھی قولاً کبھی فعلاً اور کبھی خواص طالبین کے لیے سکوت سے بھی تعلیم دیتے ہیں ؎ اولیا را در دروں ہا نغمہ ہاست طالباں رازاں حیاتِ بے بہاست اولیاء اللہ کے سینے میں عشقِ حقیقی کے نغمات ہیں، اور طالبین کو ان نغماتِ باطنی سے حیاتِ بے بہا حاصل ہوتی ہے۔ خامش اند و نعرۂ تکرار شاں میرود تا عرش و تختِ یار شاں اولیاء اللہ خاموش بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ان کے عشق زدہ قلب کے نعروں کی تکرار عرش تک یعنی تختِ شاہ تک پہنچتی ہے۔ تعلیمِ فعلی پر ایک حدیث یاد پڑی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: