معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
الغرض حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے شانوں کو ہلاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یَاابْنَ عُمَرَ!کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ دنیا میں مسافر کی طرح سے رہو، تو گھر کے اندر ہے اور مسافر کی طرح ہے۔ مسافر کسی سے میل جول نہیں رکھتا ہے، کوئی اس سے فضو ل گفتگو کرتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں بے وطن ہوں، مسافر ہوں، میں آپ کی ان باتوں میں کیا مدد کرسکتا ہوں، میرے سامنے میرے سفر کے حقوق ہیں۔ مسافر تعلقاتِ غیر ضروریہ سے اپنے کو بچاتا ہے تاکہ سفر میں خلل نہ پیدا ہو۔ غیر ضروری اسباب اور تکلّفات میں جو وقت صَرف کیا جاتا ہے جس طرح وہ محبّت کی شان کے خلاف ہے اسی طرح بے ضرورت میل جول اور یار باشی میں وقت ضایع کرنا بھی شانِ محبت کے خلاف ہے۔ محبِ صادق کی شان تو یہ ہوتی ہے ؎ کہ بفراغ دل زمانے نظر ے بماہ رُوئے ازاں بہ کہ چتر شاہی ہمہ روز ہائے ہوئے فراغِ قلب سے ایک نظر اُس ماہ رُو کو دیکھ لینے کا زمانہ بہتر ہے اس سے کہ شاہی تاج سر پر ہو اور سلطنت کا شور و غل ہو۔ پس از سی سال ایں معنیٰ محقق شد بخا قانی کہ یک دم باخدا بودن بہ از ملکِ سلیمانی قصّۂ یکے از باد شاہانِ عرب کہ عشقِ حقیقی اوراازخطۂ عرب بیروں کرد عرب میں ایک بادشاہ امرأ القیس نامی گزرے ہیں اور اسی نام کا ایک شاعر بھی گزرا ہے، جس کا زمانہ سید نا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ۲۴ سال پہلے ہوا ہے، مگر یہ دوسرے امرأالقیس ہیں، جن کا واقعہ مولانا نے ’’مثنوی شریف‘‘ میں بیان فرمایا ہے۔ یہ پہلے سلطنت اور حکومت کے حریص تھے اور بہت صاحبِ کمال،حسین و جمیل بادشاہ تھے۔ جب عشقِ حقیقی نے ان پر اپنا اثر کیا تو عشق نے اُن کو خطۂ عرب سے باہر کردیا ، کیوں کہ محبت تمام لذات کو اَلَمْ سے بدل دیتی ہے۔ صاحبِ قصیدۂ بردہ فرماتے ہیں ؎