معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
یَبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللہِ وَ رِضۡوَانًا ہے۔ ہر وقت ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ میاں کس بات سے خوش ہوں گے۔ایک دُھن لگی ہے کہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا کیسے حاصل ہوجائے۔ اس مقصد کے لیے کبھی میدانِ کار زار میں کھڑے ہیں، کبھی اپنے بھائیوں کے ساتھ رحمت کا سلوک کررہے ہیں،کبھی اپنے اللہ کی یاد میں کھڑے ہیں،کبھی رکوع میں جھکے ہیں،کبھی سجدے میں پڑے ہیں اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللہِ وَ رِضۡوَانًا ہر صحابی سچّا عاشق تھا اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ اللہ تعالیٰ نے اُن کی شدّتِ محبّت بیان فرماکر تعلیم فرمادی کہ ایمانِ کامل جب ہی ہوتا ہے جب اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبّت میں سرگرمی اور شدّت پیدا ہوجائے۔ حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے طریقِ عشق سے راستہ طے کیا تھا ۔ گھرسے بے گھر ہونا،جان اورمال کا قربان کرنا، ملامت کرنے والوں کی ملامت سے بے خوف ہو جانا بدون شدّتِ محبّت کے ممکن نہیں ہے اور حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ہجرت کرکے، جانی اور مالی جہاد کرکے خاندان اور کنبہ کی ملامت سے بے خوف ہوکر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبّت میں جو سرگرمیاں دکھائیں وہ ان کی شدّتِ محبّت ہی کے پھل پھول تھے، اور محبت جب شدّت پکڑلیتی ہے تو اسی کا نام عشق ہے۔ حضرت مرشدی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ اٰمَنَّامعنیٰ میں عشقنا کے ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پھر عشقنا کیوں نہیں فرمایا؟ تو بات یہ ہے کہ لفظ عشق چوں کہ شعرائے عرب میں نفسانی محبّت کے لیے مستعمل ہوتا تھا اس لیے حق تعالیٰ نے اس کو شدتِ محبت سے تبدیل فرماکر اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ ؕفرمادیا، اخلاص کا مقام بدون شدّتِ محبّت کے حاصل نہیں ہوتا ہے۔عشق ہی ایسی چیز ہے جو غیر محبوب سے بے گانہ کردیتی ہے۔ عشق سارے باطنی امراض مثلاً ریا، کینہ، عُجب، حسد، بغض وغیرہ کو جَلادیتا ہے۔ اسی کو حضرت عارف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎