معرفت الہیہ |
س کتاب ک |
|
چاہیے اور نہ اُن کے ساتھ کوئی تکلیف دہ معاملہ کرنا چاہیے۔ اللہ والوں کو تکلیف دینے والا آدمی بہت جلد مبتلائے قہر ہوجاتا ہے اور حضرت مرشدی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے استد لال فرماتے تھے کہ ایک بار حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں اس امر کے متعلق اختلاف ہوا کہ آپ کو دوا پلائی جائے یا نہیں۔ جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر عالمِ نزع طاری تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوا پینے سے انکار فرمادیا تھا اور پھر غشی طاری ہوگئی تھی۔ بعض اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے یہ اجتہاد کیا کہ یہ انکار ایسا ہی ہے جیسا کہ مرض کی شدّت میں ہر انسان غیر ارادی طور پر غفلت اور بے ہوشی میں دوا پینے سے انکار کردیتا ہے اوربعض اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے یہ اجتہادکیا کہ نہیں!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حکم فرمایا ہے اسی کی تعمیل ہونی چاہیے، عام طبائع پر آپ کو قیاس کرنا مناسب نہیں ہے۔ الغرض غلبۂ محبّت اور خیر خواہی میں دوا پلادینے کی رائے پر عمل کیا گیا، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں کو فوراً بلاؤ جنہوں نے ہمیں دوا پلائی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فوراً وہی دو ا ان لوگوں کو پلاؤ، ورنہ اندیشہ ہے کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کسی سزا میں مبتلا فرمادیں۔ حضرت والا نے فرمایا کہ حدیث سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کو بہ نیت خیر خواہی بھی اگر کسی نے تکلیف پہنچادی تو اس کے لیے بھی یہ خطرناک صورت ہے اور ارشاد فرمایا کہ ایک بار امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک شخص بے تمیز اور بے ادب حاضر ہوا اور اس نے آپ کے حلم اور تحمل کا امتحان کرنے کے لیے یہ سوال کیا کہ آپ اپنی والدہ کا جو ایسی صورت کی ہیں، میرے ساتھ نکاح کردیں، آپ نے فرمایا: اچھا میں اندر جاکر والدہ سے دریافت کرکے جواب دیتا ہوں۔ آپ اندر تشریف لے گئے اور جب باہر آئے تو وہ شخص مرا ہواپڑا تھا۔فوراً اللہ تعالیٰ نے اس پر قہر نازل فرمایا۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہاتھی کو چھیڑنا مگر ہاتھی کے بچّے کو نہ