صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
صحت عمدہ نہیں ہوپائے گی۔ ہاتھ پاؤں کمزور رہیں گے۔ اسی طرح جس کی روح کو جس شیخ سے مناسبت ہوگی اس کو وہی کامل نفعِ ہوگا ورنہ نسبتِ کاملہ حاصل نہیں ہوگی۔ جو لوگ سلوک میں قدم رکھتے ہیں یہ ان کا زمانۂ رضاعت ہے۔ ایک دو دن کا کام نہیں ہے اور نہ ہر ایک کے لیے ایک ہی مدت ہے۔ ہر ایک کی مدت اس کی حالت کے مطابق الگ ہوتی ہے۔ بعض کی مدتِ رضاعت جلد ختم ہوجاتی ہے، بعض کی دیر میں۔ مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مدت کسی اﷲ والے کے پاس رہ لو، مجاہدات کر لو، اپنے نفس کو مٹا لو ایک عرصہ تک یہ محنت کرنی پڑے گی پھر یہ رضاعت کا زمانہ ختم ہوجائے گا، پھر صاحبِ اولاد ہونے کی صلاحیت پیدا ہوجائے گی۔ بچہ ہمیشہ بچہ تھوڑی رہتا ہے، کبھی باپ بھی بنتا ہے۔ پھر تم میں دوسروں کو اﷲ والا بنانے کی صلاحیت پیدا ہوجائے گی، پھر تمہاری نسبت تم تک محدود نہ رہے گی بلکہ متعدی ہوجائے گی۔ تمہیں دیکھ کر دوسرے اﷲ والے بنیں گے جیسے گوشت کے قیمہ کو ایک وقت تک کوٹا پیسا جاتا ہے۔ پھر کباب کو جب آنچ پر رکھا جاتا ہے تو اس کی خوشبو سے کافروں کے دل میں بھی ایمان آنے لگتا ہے کہ گائے کا کباب ایسا ہوتا ہے تو لاؤ میں بھی کلمہ پڑھتا ہوں۔ اسی طرح جب کوئی اﷲ کے راستے میں کسی کی راہ بری میں خوب مجاہدہ کرتا ہے تو ایک وقت آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کی خوشبو اڑا دیتے ہیں، جس سے اس اﷲ والے کو دیکھ کر کافروں کے دلوں میں ایمان آتا ہے۔ جب آدمی صاحبِ نسبت ہوجاتا ہے تو اسے خود معلوم ہوجاتا ہے کہ آج میں صاحبِ نسبت ہو گیا۔ حضرت خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب جو حضرت تھانوی کے بہت چہیتے خلیفہ تھے حضرت کے عاشق تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے دریافت کیا کہ جب آدمی صاحبِ نسبت ہوجاتا ہے تو کیا اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ آج میں صاحبِ نسبت ہو گیا؟ حضرت نے فرمایا کہ ہاں! جب بچہ بالغ ہوتا ہے تو کیا اسے معلوم نہیں ہوجاتا کہ آج میں بالغ ہو گیا یا وہ کسی سے پوچھنے جاتا ہے کہ میں بالغ ہوا یا نہیں؟ اس کی رگ رگ کا جوش اور طاقت اسے خود بتا دیتی ہے کہ آج تو بالغ ہو گیا۔