صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
اور بوٹ بریک پر رکھے گا، بریک لاکھ قیمتی ہو، خواہ سونے کی ہواور وہ لاکھ کہے کہ صاحب!مجھ پر یہ بوٹ نہ رکھیے، میری توہین ہورہی ہے، میری گردن سے اپنا بوٹ ہٹا لیجیے، لیکن ڈرائیور کہے گا کہ اے بریک! اگر میں تیری گردن سے بوٹ ہٹالوں تو کار کا ایکسیڈنٹ ہوجائے گا۔ پھر نہ تیری خیر ہوگی نہ میری، اور میری کار پر جو بیٹھیں گے ان کی بھی خیر نہیں ہے۔ تو شیخ مثل ڈرائیور کے ہوتا ہے، اپنے مرید کی رفتار دیکھتا رہتا ہے۔اللہ والوں کی عظمت میں کمی کا سبب اللہ تعالیٰ کی عظمت میں کمی ہے بندگی سے اللہ ملتا ہے۔ورنہ آدمی کتنی ہی کتب بینی کر لے،ایک لاکھ کتابیں پڑھ لے، دس دس گھنٹے تقریر کر لے اور ساری کائنات میں ٹی وی پر، اخبارات میں اس کی شہرت ہوجائے لیکن اس کا سینہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے درد سے آشنا نہیں ہوسکتا جب تک وہ کسی اہل اللہ کی جوتیاں نہیں اٹھائے گا۔ کیوں کہ کتابوں سے مقادیرِ علم عطا ہوتے ہیں یعنی مقادیرِ اعمال مثلاً مغرب کی تین رکعات، فجر کی دو رکعات، اس کو مقادیرِ اعمال کہتے ہیں۔ اور اہل اللہ کے سینوں سے، ان کی صحبتوں سے، ان کے ساتھ حسنِ ظن سے ،ان سے اخلاص کے ساتھ محبت، عقیدت اور عظمت سے کیفیاتِ اعمال عطا ہوتی ہیں۔ اور جو اللہ والوں کی عظمت نہیں کرتا دراصل یہ اللہ تعالیٰ کی عظمت میں کوتاہ ہے۔ کیوں کہ اللہ والوں کی عزت و عظمت و تعظیم و تکریم کرنا دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی تعظیم و تکریم ہے۔ اسی لیے اُن لوگوں کو زیادہ فیض ہوا ہے جنہوں نے اپنے مربی سے زیادہ تعلق قائم کیا۔اللہ والوں کے پاس بیٹھنا گویا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس بیٹھنا ہے جس کو تمنا ہو کہ میں تھوڑی دیر اللہ کے پاس بیٹھ جاؤں،اس کو کہہ دو کہ وہ کسی ولی اللہ کے پاس بیٹھ جائے۔ اب اس کی دلیل عرض کرتا ہوں، اہل ِعلم ہر بات کی دلیل مانگتے ہیں کہ صاحب! اس کی دلیل پیش کیجیے۔ میں حدیث پیش کرتا ہوں کہ اللہ والے ہر وقت ذکر میں مشغول رہتے ہیں۔ کبھی قلباً ،کبھی قالباً، کبھی دل میں،کبھی جسم سے اور کبھی زبان سے۔ لہٰذا وہ اللہ کے جلیس ہیں کیوں کہ حدیثِ قدسی ہے: