صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
کی طرح، اسی طرح ویش دراصل وش تھا۔ درویش، موتی کی طرح۔ اﷲ والے موتی کی طرح ہیں، اس لیے ان کو’’دُرویش‘‘کہا جاتا ہے۔ اور اگر دال پر زبر دَرویش پڑھا جائے تو یہ لفظ دراصل درویز تھا اور ویز آویز تھا۔ درآویز کا مفہوم دروازوں پر لٹکنے والے، پس یہ لفظ زبر کے ساتھ گداگروں اور بھک منگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ اﷲ والوں کے لیے نا مناسب ہے۔ جیسا کہ خواجہ صاحب کا شعر ہے ؎ شاہ صاحب جو سمجھتا ہے تو بِھک منگوں کو تو نے دیکھی نہیں وہ صورتِ شاہانہ ابھی اﷲ والوں کے لیے دُرویش پیش کے ساتھ کی تائید اس شعرِ مثنوی سے بھی ہوتی ہے ؎ گر تو سنگ خارہ و مرمر بوی چوں بصاحبِ دل رسی گوہر شوی مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :اے شخص! اگر تو سنگِ خارہ اور سنگِ مرمر ہے یعنی سینے میں غفلت زدہ دل رکھتا ہے تو کسی اﷲ والے اہلِ دل کے پاس بیٹھا کر، تاکہ گوہر (موتی) ہوجائے۔ اﷲ والوں کا دل واقعی موتی بلکہ اس سے بھی قیمتی ہوتا ہے کیوں کہ ان کا دل اپنے دردِ محبت کے فیض سے دوسروں کے دلوں کو بھی درد بھرا دل بنا دیتا ہے ؎ جو دل کہ تیری خاطر فریاد کر رہا ہے اجڑے ہوئے دلوں کو آباد کر رہا ہےاہل اﷲ کی محبت اور صحبت میں جنت کا لطف ہے حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ میں رہتا ہوں دن رات جنت میں گویا مرے باغِ دل میں وہ گلکاریاں ہیں احقر کا فارسی شعر ہے ؎